بارہ سال سے جاری افغان جنگ امریکی مفاد میں تھی: کرزئی

03 مارچ 2014
واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی حکومت کے لیے انتہائی غصے کا اظہار کیا۔ —. فائل فوٹو
واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی حکومت کے لیے انتہائی غصے کا اظہار کیا۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی حکومت کے لیے اپنے ’’انتہائی غصّے‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ اُن کے خیال میں خود ان کے ملک کے مفاد میں نہیں تھی۔

اپنے جانشین کے انتخاب سے صرف ایک ماہ پہلے اتوار کو شایع ہونے والے انٹرویو میں کرزئی نے کہا ’’افغان جس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ ہماری نہیں تھی۔‘‘

انہوں نے حوالہ دیا کہ جیسا کہ بارہ برس پرانی اس جنگ کو امریکا کی طویل جنگ کہا جاتا ہے، جو گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی، انہیں یقین ہے کہ یہ امریکی سیکیورٹی اور مغربی مفادات کے لیے تھی۔

کرزئی نے واشنگٹن کے ساتھ ایک سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکا کردیا تھا، جس کے تحت غیرملکی افواج کو افغانستان میں اس سال کے بعدقیام کی اجازت ہوگی۔ وہائٹ ہاؤس کو اس رویّے سے مایوسی ہوئی تھی اور صدر بارک اوباما نے پینٹاگون سے کہا تھا کہ وہ مکمل انخلاء کی تیاری کرے، کہ 2014ء کے بعد کوئی بھی امریکی فوجی افغانستان میں نہیں چھوڑا جائے گا۔

اوبامہ نے کرزئی کو منگل کے روز ایک فون کال میں بتایا تھا کہ انہوں نے پینٹاگون یہ حکم دے دیا ہے۔ جون کے بعد دونوں رہنماؤں میں ٹیلیفون پر یہ پہلی اہم بات چیت تھی۔

لیکن وہائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کی اس سال کے بعد منظوری کے امکان کا راستہ بند نہیں کیا ہے۔

کرزئی نے واشنگٹن پوسٹ سےکہا ’’یہ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ میرے جانشین کے ساتھ اس پر دستخط کرلیں۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ امریکا کو چاہیٔے کہ وہ فوری طور پر طالبان باغیوں سے امن مذاکرات شروع کرے اور افغان گھروں پر اس معاہدے دے پہلے چھاپہ مار کاروائیاں اور حملے بند کردے۔

افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودہ تعداد باون ہزار فوجیوں سے زیادہ ہے، جن میں تینتس ہزار چھ سو امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔ تین ہزار چار سو سے زیادہ اتحادی فوجی طالبان کے خلاف لڑائی میں مارے جاچکے ہیں، جن میں دو ہزار تین سو امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔

دیکھا جارہا ہے کہ افغانستان کی پولیس اور فوج میں عسکریت پسندوں سے لڑائی کے لیے ان کی صلاحیت میں اہم اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اس بارے میں شکوک شبہات اب بھی موجود ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف برتری حاصل کرسکتے ہیں، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں۔

کرزئی نے امریکی اخبار کو بتایا کہ افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ان کے ملک کی بربادی کی بنیادی وجہ ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ کرزئی نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’امریکی عوام کو میری نیک خواہشات اور میرا شکریہ پہنچادیجیے۔ امریکی حکومت کو میرا غصہ، میرا انتہائی غصہ دیجیے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں