اسلام آباد: حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ حکمران اتحاد کے اراکین نے بھی قومی سلامتی پالیسی کو سینیٹ میں پیش نہ کرنے پر گزشتہ روز حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

یاد رہے کہ قومی سلامتی سے متعلق یہ پالیسی گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دھماکے کی وجہ سے ایوان کی کارروائی معطل ہوگئی جس کے بعد توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے سینیٹ اراکین نے وزیرعظم نواز شریف کی سینیٹ سے مسلسل غیر حاضری پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت ایوانِ بالا کو نظر انداز کررہی ہے جو فیڈریشن کی نمائندگی رکھتا ہے۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پانچ روز قبل قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردیا، لیکن یہ دستاویزات ابھی تک سینیٹ کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔

مسلم لیگ ق کے سینیٹر اور سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ قومی پالیسی کی یہ دستاویزات تمام اراکین کے ساتھ شیئر کی جائیں گی، اس لیے کہ ابھی تک سینیٹ اراکین کو اس کی کاپیاں فراہم نہیں کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ پر ایوان کا بائیکاٹ ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے حکومت سے کہا کہ ایوان سے اپنی وابستگی ظاہر کرے اور عوام کے جان و مان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

انہوں نے خبر دار کیا کہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال ناصرف حکومت کو غیر مستحکم کرے گی، بلکہ یہ جمہوریت کے لیے بھی خطرہ ہے اور عوام کسی بھی قیمت پر ملک میں امن چاہتے ہیں۔

حکومتی نشستوں پر بیٹھنے کے باوجود، جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی – ایف) کے حافظ حامداللہ نے قومی سلامتی پالیسی کے کچھ حصوں کو خفیہ رکھنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

جے یو آئی ف کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں جو پالیسی پیش کی اس کا پہلا حصہ ہی خفیہ رکھا گیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ قومی پالیسی کو خفیہ رکھنے سے آخر کس طرح پالیمنٹ اس پر بحث کر سکتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود ہی شدت پسندی کو فروغ دینے کی مرتکب ہورہی ہے۔

منگل کے روز کا اجلاس ملتوی ہونے سے قبل سینیٹ کے چیئرمین نیّر بخاری نے حکومت کو ہدایت جاری کیں کہ وہ قومی سلامتی پالیسی کو ایوان کے سامنے پیش کرے۔

سینیٹ چیئرمین نے قرار دیا کہ "قومی سلامتی پالیسی کو پیش نہ کرکے ایوان کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟ اگر یہ قومی اسمبلی میں پیش کی جاچکی ہے تو اسے یہاں بھی لانا چاہیے۔ میں حکومتی نشستوں سے کہوں گا کہ وہ رپورٹ پیش کریں۔"

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں