جب حلیف اور حریف دونوں ہی حکومت پر برسے

05 مارچ 2014
سینیٹ کے اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف اور حکمران جماعت کے سینیٹروں نے طالبان سے متعلق حکومتی پالیسی پر سخت تنقید کی۔ —. فائل فوٹو
سینیٹ کے اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف اور حکمران جماعت کے سینیٹروں نے طالبان سے متعلق حکومتی پالیسی پر سخت تنقید کی۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: حزبِ اختلاف اور حکومت سے تعلق رکھنے والے سینٹروں نے منگل کے روز کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی حکومتی پالیسی پر سخت تنقید کی اور اس کو ریاست کی کمزروی کے مترادف قرار دیا۔

پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرتے ہوئے سینیٹروں نے کہا کہ پیر کو اسلام آباد کی عدالت پر ہونے والے حملے سے سیکیورٹی کے سنگین نقائص کا انکشاف ہوا ہے اور یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

اپنی تقاریر میں سخت تنقید کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے سینیٹروں نے وزیرِ داخلہ نثار علی خان کی ایوان میں عدم موجودگی کو نشانہ بنایاکہ وہ انہوں نے اس واقعہ سے متعلق انہیں بریفنگ نہیں دی اور ان کے نائب بلیغ الرحمان کو سننے سے انکار کردیا۔

سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف اعتزاز احسن نے وزیراعظم اور وزیرِ داخلہ کو ’’مفرور‘‘ تک قرار دے دیا اور پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما رضا ربّانی نے چوہدری نثار سے کہا کہ وہ اس حملے کے بعد استعفےٰ دے دیں، اس لیے کہ سیکیورٹی انتظامات کے بارے میں ان کے بلندبانگ دعووں کے باوجود دارالحکومت میں یہ سانحہ رونما ہوا۔

جیسے ہی بلیغ الرحمان دونوں اطراف سے کی جانے والی تقاریر کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے، حزبِ اختلاف کے اراکین نے ڈیسک بجاتے ہوئے چلّانا شروع کردیا ’’نہیں، نہیں‘‘۔

پیپلزپارٹی کے سعید غنی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی تو اس کے بعد حزبِ اختلاف کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

سینیٹ کے حالیہ اجلاس کے دوران یہ تیسرا موقع تھا کہ حزبِ اختلاف نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا اور ایوان کارروائی متاثر ہوئی، چیئرمین سینیٹ نیّر بخاری کو اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس سے قبل حکومت پر تمام اطرف سے تنقید کی گئی، یہاں تک کہ حکومتی بینچوں پر بیٹھے سینیٹروں نے بھی امن مذاکرات کی مخالفت کی۔

مسلم لیگ نون کے رہنما محمد حمزہ نے کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حکومتی کمزوری کی علامت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو طالبان کے ساتھ کھلے عام مذاکرات نہیں کرنے چاہیٔے تھے، اس لیے کہ وہ عام شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں ملؤث ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ طالبان نے اس وقت جنگ بندی کا اعلان کیا جس وقت وہ مصیبت میں مبتلا تھے۔انہیں وقت نہیں دینا چاہیٔے اور ان کے مظالم کو روکنے کے لیے ان کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیٔے۔ انہوں نے وزارتِ داخلہ پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ عدالتوں پر دھاوا بولنے والے دہشت گردوں کی تعداد کیا تھی۔

رضا ربّانی نے یاد دلایا کہ وزیرداخلہ نے ایک مرتبہ یہ بیان دیا تھا کہ وہ ایک سال کے اندر سیکیورٹی صورتحال کو بہتر نہ بنا پائے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ’’جیسا کہ ایک سال تقریباً پورا ہی ہونے والا ہے اور قوم منتظر ہے کہ وہ کب اپنا وعدہ پورا کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ ایک ریپڈ رسپانس فورس تشکیل دی گئی ہے، جو دہشت گردی کی کارروائی کے مقام پر سات منٹ کے اندر پہنچ جائےگی۔ انہوں نے دریافت کیا ’’وہ فورس کہاں تھی؟ دہشت گرد چوالیس منٹ تک وہاں موجود تھے۔ آخر کیوں نہیں وہ فورس وہاں پہنچی۔‘‘

متحدہ قومی موومنٹ کے بابر غوری نے حکومت سے کہا کہ عدالت پر حملے کے ذمہ داروں کو شناخت کیا جائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ٹیلیفون پرکی جانے والی سیاستدانوں کی بات چیت ریکارڈ کرنے میں مصروف رہتی ہیں اور دہشت گردوں کو انہوں نے فری ہینڈ دے رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کا ایک چھوٹا سا گروپ ایسی کارروائی کرسکتا ہے تو پھر کوئی بھی مرکزی گروپ کی صلاحیت کا اندازہ لگاسکتا ہے کہ وہ ملک کے اندر کہیں بھی حملہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج دہشت گردوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھی، اور قوم بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔

نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے کہا کہ کوئی بھی حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرسکتی۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے پر اتفاقِ رائے کا انتظار نہ کرے، اس لیے کہ مذہبی جماعتیں ہمیشہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کریں گی۔

حاصل بزنجو نے حکومت کو طالبان سے متعلق اس کی پالیسی پر نظرِ ثانی کے لیے ایک کثیر جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا مشورہ دیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’’اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقابلہ نہیں کیا اور اس جنگ کو جیتنے میں ناکام رہے، تو پھر ریاست کی موجودہ شکل برقرار نہیں رہ سکے گی۔‘‘

نیشنل پارٹی کے رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے ایسے اراکین، جنہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیٔے تھا، وہ کھلے عام عوامی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالنبی بنگش نے امن مذاکرات میں مولانا سمیع الحق کے کردار پر سوال اُٹھایا کہ ان کی جماعت کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے علاوہ عوام اور فوج ایک طرز پر سوچ رہی ہے۔ ’’یہ وقت کارروائی کرنے کا ہے، مذاکرات کا نہیں۔‘‘

ٹی ٹی پی کے اس دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ وہ اسلام آباد حملے میں ملؤث نہیں تھی، حکمران جماعت کے ایک اور سینیٹر رفیق راجوانہ نے کہا کہ اس بات کی تفتیش کی جانی چاہیٔے کہ آیا عسکریت پسند سچ کہہ رہے تھے۔

مسلم لیگ قاف کے کامل علی آغا نے ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ وزیرِ داخلہ نے انتظامیہ کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد اسلام آباد کی عدالتوں کا وزٹ کیا تھا، کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ مقام وزٹ کے لیے محفوظ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں