ٹی ٹی پی جنگ بندی کی خلاف ورزی پر مایوس

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2014
ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے ایک بیان میں زور دیا ’’ہمارے نزدیک معاہدوں کی پاسداری ایک مذہبی فریضہ ہے۔ کچھ نامعلوم قوتیں اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ہمیں پتہ چلا کہ یہ مجاہدین کے گروپس ہیں تو ہم ان کے خلاف اقدام کریں گے۔‘‘ —. فائل فوٹو اے پی
ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے ایک بیان میں زور دیا ’’ہمارے نزدیک معاہدوں کی پاسداری ایک مذہبی فریضہ ہے۔ کچھ نامعلوم قوتیں اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ہمیں پتہ چلا کہ یہ مجاہدین کے گروپس ہیں تو ہم ان کے خلاف اقدام کریں گے۔‘‘ —. فائل فوٹو اے پی

کراچی: حالانکہ جنگ بندی کے بعد دہشت گردانہ حملوں کو دیکھتے ہوئے ایک بھرپور فوجی آپریشن کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے، اس کے باوجود کچھ ماہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں کی ذہنیت کو بہتر انداز میں سمجھ کر اس کو ریاست کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک عہدے دار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہمارا معاشرہ سطحی طور پر ’صرف مذاکرات‘ اور ’صرف فوجی آپریشن‘ کے خطوط پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ہمیں عسکریت پسندوں کی طرزِ فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان کے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات موجود ہیں، اور انکے انہی اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

حال ہی میں ایک نیا گروپ احرارالہند کے نام سے سامنے آیا ہے اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی سے ٹوٹ کر علیحدہ ہوا ہے۔

اس گروپ نے اسلام آباد کے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پاکستان بھر میں خصوصاً بڑے شہروں میں حملے جاری رکھنے کا اپنا مذموم ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے سربراہ عمرقاسمی کا نام شمالی وزیرستان یا دیگر شہروں میں عسکریت پسند حلقوں کی جانب سے کبھی نہیں سنا گیا۔

نوتشکیل شدہ اس گروپ کے ترجمان اسد مسعود کا کہنا ہے کہ ’’ٹی ٹی پی کے لیڈر محض قبائلی علاقوں کو آزاد کروانے کی نیت سے مذاکرات کے عمل میں داخل ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں شریعت کا نفاذ ان کا مطالبہ نہیں ہے۔ وہ شہروں میں رہنے والے مجاہدین کو نظرانداز کررہے ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کا مہمند چیپٹر بھی مذاکرات پر تنقید کرتا رہا ہے، تاہم اس کا کہنا ہے ہ وہ اپنی قیادت کے فیصلے کی پاسداری کرے گا۔

ٹی ٹی پی کے مہمند کے ترجمان عمر خراسانی نے ڈان کو بتایا ’’ہم باہمی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ہماری قیادت نے ایک ماہ طویل جنگ بندی کے انتخاب کا فیصلہ کیا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ ریاست کی جانب سے ہمارے اراکین کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ہم اس کی پابندی کریں گے۔‘‘

افغانستان میں ہوئی ایک حالیہ ملاقات کے دوران ٹی ٹی پی مہمند چیپٹر کے سربراہ خالد خراسانی (جو پہلے عمر خالد خراسانی کے نام سے جانے جاتے تھے) نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کی ہائی کمانڈ کے اندر ان کے گروپ کی خاصی نمائندگی موجود ہے اور وہ امن مذاکرات پر اتفاق کرتے ہیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا ’’اس بارے میں سوچیے کہ ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کی قیادت کرنے والے قاری شکیل احمد حقانی درحقیقت میرے نائب ہیں۔ لہٰٕذا اس الزام میں کوئی سچائی نہیں کہ ہم مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

لیکن پسِ پردہ حقیقی سوچ احرارالہند سے غیرمعمولی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

ٹی ٹی پی مہمند کے ایک سینئر کمانڈر، جنہوں نے حال ہی میں اس دعوے کو مسترد کردیا تھا، کہ احرارالہند کو ٹی ٹی پی مہمند کی جانب سے چلایا جارہا ہے، کہتے ہیں کہ ’’وزیرستان میں ہمارے کچھ رہنماؤں کا نکتہ نظر بہت محدود ہے۔ وہ محض وزیرستان میں کچھ مراعات پر مطمئن ہوجائیں گے۔ہمارا ایجنڈا محض وزیرستان حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ہم عالمی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

انہوں نے ڈان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم اس گروپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اگر آپ حقیقت سے واقف ہیں تو ہمیں بتائیں کہ وہ کون ہیں۔‘‘

ان کےاس دعوے کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ اس گروپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے مذاکرات کی سختی سے مخالفت کی ہے، انہیں خوف ہے کہ معاہدے میں ممکنہ طور پر غیرملکی جنگجووں کو پاکستان سے نکالنے کی شق شامل کی جائے گی۔اس اقدام کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

احمد مروت کی جنداللہ جو ٹی ٹی پی کا ایک گروپ ہے، مذاکرات کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی مخالفت کرتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ یہاں تجربہ کار مجاہدین سے بات کرتے ہیں، تو مشکل ہے کہ انہوں نے کبھی اس خاص گروہ کے بارے میں سنا ہو یا ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے پسِ پردہ کام کررہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

تاہم اس مشکل گھڑی میں، عصمت اللہ معاویہ کی سربراہی میں پنجابی طالبان اور القائدہ ٹی ٹی پی حمایت میں اکھٹا ہیں۔

القائدہ کے رکن اور پاکستان میں سے متعلق شعبے کے سربراہ احمد فاروق سے نزدیک ایک القائدہ ممبر نے ڈان کو بتایا ’’ہم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے معاملے پر ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس وقت تک اپنی حمایت جاری رکھیں گے جب تک کہ یہ عمل انہیں پارلیمانی سیاست کی جانب نہیں لے جاتا یا پھر وہ اپنے اصل مقاصد سے دور ہوجاتے ہیں۔‘‘

شمالی وزیرستان میں ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت کچھ گروپس کی جانب سے جنگ بندی کی پابندی نہ کرنے پر مایوس ہے۔

اتفاق سے ٹی ٹی پی کے اراکین کی ایک بڑی تعداد نے اس مایوسی کا اظہار اس نامہ نگار سے اور عسکریت پسندی کی کوریج کرنے والے دیگر صحافیوں سے بھی کیا ہے،کہ اگر ان کے پاس جہادی گروپس میں موجود ایسے شرپسندوں کے بارے میں ایسی کوئی معلومات موجود ہے جو جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تو انہیں فراہم کی جائے، وہ بھی انہیں تلاش کرنے کی شدید کوشش کررہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت نے خبردار کیا ہے کہ ایسے گروپس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ایک بیان میں شاہد اللہ شاہد نے زور دیا ’’ہمارے نزدیک معاہدوں کی پاسداری ایک مذہبی فریضہ ہے۔ کچھ نامعلوم قوتیں اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ہمیں پتہ چلا کہ یہ مجاہدین کے گروپس ہیں تو ہم ان کے خلاف اقدام کریں گے۔‘‘

تبصرے (2) بند ہیں

Syed Mar 06, 2014 11:57am
طالبان سے مذاکرات پر سنی، شیعہ، ملک کے تمام اعتدال پسند عوامی حلقے، پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت اکثریت کی تمام تر مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت کی جانب سے بھی مخالفت آن دی ریکارڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز حکومت اقلیتی رائے کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ کیوں رچا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
Syed Mar 06, 2014 12:12pm
کالعدم دہشتگرد طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان قومی اتفاق رائے منتشر کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی قابلِ قبول نہیں۔ تمام لشکر، سپاہ اور طالبانِ خون کو فوری طور پر اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اِن دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں، ریاستی ادارے اپنا آپریشن شروع کریں اور اِن خوارج و تکفیری طالبان کے مزید ٹائم لینے کے دھوکے میں نہ آئیں- یاد رکھیں، پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا آپریشن شروع کیا جائے اور تمام دہشت گردوں کے مکمل خاتمے یا سرنڈر کرنے تک جاری رکھا جائے۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو بھی لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔