'افغان حمایت کے بغیر فوجی آپریشن ناکام ہوسکتا ہے'

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2014
افغانستان کی سرحد کے نزدیک وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے ایک ٹاؤن کرم ایجنسی میں پاکستانی فوج کے اہلکار گشت کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
افغانستان کی سرحد کے نزدیک وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے ایک ٹاؤن کرم ایجنسی میں پاکستانی فوج کے اہلکار گشت کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

واشنگٹن: امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان فاٹا میں فوجی آپریشن کے لیے تیار ہے، لیکن افغانستان کے ساتھ جاری رقابت اس کو اس آپریشن میں ناکامی سے دوچار کرسکتی ہے۔

اس ہفتے ہونے والے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز اور تھنک ٹینک کے مباحثوں میں ماہرین نے اس آپریشن کی کامیابی کے لیے پاک افغان سرحد پر دونوں اطراف تعینات فوجوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ رابطوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے مضبوط دفاعی شراکت داری چاہتا ہے۔

لیکن پاکستان کے لیے امریکا کہ ایک سابق سفیر کیمرون مینٹر کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں پائیدار تعلقات کے لیے پاکستانی عوام کے ساتھ ایک وسیع تر معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

اور ایوان کی دفاعی فنڈزکی کمیٹی کے چیئرمین روڈنی فریلنگ ہوئسن جو حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرکے آئے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان نے طالبان کے ناپسندیدہ ہدف سے کہیں زیادہ اپنی توجہ ہندوستان کے خطرے پر مرکوز کر رکھی ہے۔

سی این این سے اتوار کے روز نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن کے ادارے میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر فریڈرک گریر نے زور دیا کہ پاکستان تنہا افغان سرحد کو بند نہیں کرسکتا اور افغانستان، اسلام آباد کی جانب سے عدم مداخلت کی قابلِ اعتماد ضمانت کے بغیر پاکستان سے اس سلسلے میں تعاون نہیں کرے گا۔

فریڈرک گریر نے خبردار کیا کہ ’’افغانستان کی حمایت کے بغیر شروع کیے جانے والے آپریشن سے اس بات کا خطرہ بڑھ جائے گا کہ دہشت گرد اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آئیں، جس سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی امریکا کی سفارتی تدبیروں سے متعلق آزادی کو کم کردے گی۔

امریکی میرین کور پر آفیسر آف دی اسٹاف اور وار کورس سے اس ہفتے کے شروع میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے حوالہ دیا کہ پاکستان اور امریکا القاعدہ اور دہشت گردوں کے دیگر نیٹ ورک کے خلاف جنگ میں قابلِ قدر کامیابی حاصل کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’’اور دونوں ملکوں کی مشترکہ خواہش ہے کہ اس نتیجہ خیز تعاون کو مزید ترقی دی جائے۔ وہ باہمی دوستی کو مزید گہرا کرکے اور اعتماد بخش کر بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘

بعض ماہرین مثلاً فریڈرک گریر کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کے لیے امریکی حمایت کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

فریڈرک گریر نے کہا ’’چونکہ تحریک طالبان پاکستان فاٹا اور افغانستان سے کاروائی کررہی ہے، چنانچہ اسلام آباد کو خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے ساتھ مل کر سازش کرسکتی ہے۔‘‘

’’یہاں تک کہ افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان ایک محدود آپریشنل اتحاد اسلام آباد کے لیے سنگین پریشانی کا سبب بن جائے گا، اور اس خطرے میں اضافے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے دلیل دی کہ ’’یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا اور پاکستان افغانستان کے تعاون کے بغیر ٹی ٹی پی کو کچلنے کی توقع نہیں کرسکتا۔ پاکستانی دباؤ کا سامنا کرنے پر ٹی ٹی پی لامحالہ افغانستان میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

فریڈرک گریر نے حوالہ دیا کہ امریکی قیادت میں اتحادی افواج طالبان کی دراندازی کو نہیں روک سکی تھی، اور افغان فوج سے کسی بہتر کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر نوکس ولے میں ہارورڈ ایچ بیکر جونیئر کے مرکز برائے پبلک پالیسی پر دیے گئے ایک لیکچر میں سفیر کیمرون مینٹر نے ان فوری خدشات سے آگے جاکر اعتماد کی تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے حوالہ دیا کہ 2011ء میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپہ مار کارروائی کے بعد کس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوئے تھے۔

کیمرون مینٹر نے کہا کہ پاکستانی عوام امریکی سیاست اور حکومت کو کٹھور تصور کرتے ہیں، لیکن امریکی بزنس، انسان دوستی اور ثقافت کی تعریف کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں