فوجی اخراجات

11 مارچ 2014
دفاعی بجٹ اور وزیرِ خزانہ کا دورہ جی ایچ کیو، چیک دینے گئے یا مذاکرات کرنے، واضح نہیں۔  فائل فوٹو۔۔۔
دفاعی بجٹ اور وزیرِ خزانہ کا دورہ جی ایچ کیو، چیک دینے گئے یا مذاکرات کرنے، واضح نہیں۔ فائل فوٹو۔۔۔

اگلے مالی سال کے دفاعی بجٹ پر تبادلہ خیال کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سنیچر کو فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) گئے جو کہ ایک اور مثبت اشارہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون فوج کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے، اور جیسا کہ پیغام گیا ملک بھی اس پر یقین کرنا چاہے گا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ جناب ڈار کے دورہ جی ایچ کیو کو ایک بہت مختلف پیغام دینے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے: سول ۔ ملٹری اشتراکِ عمل کے دہائیوں پرانے طریقوں میں واقعی بہت ہی کم تبدیلیاں آئی ہیں۔

یہاں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، کم از کم دستاویزی حد تک اس پر ذرا غور کریں، ترقی یافتہ جمہوریتوں میں، بجٹ کے اندر فوجی ضروریات کے مطالبات شامل کرنے کا راستا وزارتِ دفاع سے ہو کر گذرتا ہے۔

یہ اور بات کہ خود خواجہ آصف کو وزارتِ دفاع کا قلمدان نہایت جلد بازی میں صرف اس لیے سونپا گیا کہ لاپتا افرادکے مقدمے میں وزیرِ اعظم کو سپریم کورٹ میں طلب کیے جانے سے بچایا جاسکے لیکن جناب ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جی ایچ کیو پہنچے، حالانکہ انہیں بھلانا نہیں چاہیے تھا۔

جمہوری شکل جو ایک طویل راستا ہے، اگر اس پر عمل کیا جارہا ہے تو پھر فوجی بجٹ کی اہمیت کیا ہے؟ جیسا کہ میڈیا کے ذریعے اطلاعات پہنچی ہیں کہ فوج نے مجموعی دفاعی بجٹ میں دو عددی (ڈبل ڈیجٹ) اضافے کی درخواست کے ساتھ ساتھ، نام نہاد ترقیاتی ضروریات کے لیے مخصوص سازوسامان کی ایک فہرستِ خریداری بھی تیار کی ہے۔

بلاشبہ اس وقت داخلی محاذ پر سلامتی کی جو صورتِ حال ہے، اس کے پیشِ نظر اپ گریڈنگ کے واسطے، سازوسامان کی خریداری کے لیے فنڈز کی فراہمی کے بہت سے مطالبات جائز ہیں۔

تاہم، بجٹ اور دفاعی خریداری کے بارے میں کی جانے والی طویل بحث کے بارے میں عوام اور ٹیکس ادا کرنے والے کبھی جان نہیں پاتے، جو کچھ طے ہوتا ہے وہ سب بند دروازوں کے پیچھے، سامنے تفصیلات نہیں بلکہ صرف خریداری کی بات اور رقم کے اعداد و شمار ہی آتے ہیں۔ یہاں دو بنیادی اصول ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اول، دفاعی معاہدے بہت بڑے ہوتے ہیں اور ان کے اندر ایک فیصد کے اتار چڑھاؤ کا مطلب بھی بلاشبہ اربوں روپے کےاخراجات یا ان کی بچت ہوتا ہے۔ دوئم، قرضوں کی ادائیگی اور حکومت کے موجودہ اخراجات کے تناظر میں، دفاع پر اخراجات، ترقیاتی بجٹ پر دباؤ ڈالے گا۔

لہٰذا، اگر سلامتی کے نام پراربوں روپے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور اگر اسے جمہوری تسلسل کے ساتھ مزید آگے کی طرف بڑھنا ہے تو پھر بتانا چاہیے کہ ضروریات کیا کیا ہیں اور آیا یہ کہ سلامتی کی ان ضروریات کے لیے موثر طور پر رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔

یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ غیر متناسب گنجائش اور غیرمتناسب فنڈنگ حاصل کرتی ہے تو پھر منتخنب سویلین قیادت نے بڑی کوششوں کے بعد جو مقام حاصل کیا یہ اسے واپس لینے کے عزم کو ظاہر کرے گا۔

خزانے کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ چیزیں اہم ہیں۔ جناب ڈار کی مسکراہٹ اور اعتماد کےباوجود یہ واضح نہیں کہ وہ مذاکرات کے واسطے جی ایچ کیو گئے تھے یا صرف چیک لکھ کر دینے کی خاطر۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں