پشاوری چپل یا 'رابرٹ' سینڈل؟

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2014
سر پال سمتھ کا رابرٹ سینڈل یا پشاوری چپل؟— فوٹو بشکریہ پال سمتھ۔ سی او۔ یو کے
سر پال سمتھ کا رابرٹ سینڈل یا پشاوری چپل؟— فوٹو بشکریہ پال سمتھ۔ سی او۔ یو کے

پاکستان میں ہر مرد نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی پشاوری چپل ضرور پہنی ہو گی۔ روایتی طور پر پشاوری یا چارسدہ کی چپل اور کرتا خاص تہواروں مثلًا عید یا شادیوں کا خاصا ہے۔

یہ چپل ایک طرح سے ہماری قومی پہچان بھی ہے، کیونکہ سب ہی ناصرف اس سے واقف ہیں، بلکہ اسے پورے ملک میں بڑے چاؤ سے پہنا جاتا ہے۔

اب برطانیہ کے ایک ڈیزائنر سر پال سمتھ نے بھی پشاوری چپل کے ساتھ اپنے لگاؤ کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے ڈیزائن کو اپنا کہہ کر متعارف کر دیا ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ سر پال کی پشاوری چپل تین سو پاؤنڈز میں فروخت کی جا رہی ہے، جو پاکستان کے کسی بھی بڑے سٹورز کی رکھی اس سینڈل کی قیمت سے بھی بیس گنا زیادہ ہے۔

تاہم مسئلہ یہ ہے سر پال نے اپنی پشاوری چپل کو 'رابرٹ' نام دیا ہے۔ جی ہاں آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا، رابرٹ۔

رابرٹ کو برطانوی مارکیٹ میں متعارف کراتے وقت کہیں بھی پاکستان، پشاور یا چارسدہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اس سینڈل کے آبائی گھر کو بھی کہیں کریڈٹ نہیں دیا گیا۔

لیکن ہم بصد احترام سر پال سے یہ ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ کیا آپ کو یہی ایک نام رابرٹ ملا تھا؟

پشاوری چپل کو رابرٹ کہہ کر بیچنے کے معاملے پر آن لائن پاکستانیوں کا غصہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

سر پال کی 'تخلیقی ڈیزائن' پر بعض ہنس رہے ہیں تو کچھ مشتعل۔ باقی تو صدمہ کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

حتٰی کہ چینج ۔ ارگ نامی ویب سائٹ پر ایک پٹیشن میں ڈیزائنر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سینڈل کو 'پشاوری چپل' کا نام دیں۔

اس وقت، جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے، پٹیشن پر پچاس دستخط ہو چکے ہیں۔

انٹرنیٹ پر پاکستانی برادری کا شور شرابہ کسی نہ کسی سطح پر ضرور کارگر ثابت ہوا ہے کیونکہ اب رابرٹ سینڈل کی تفصیلات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کالے اور چمکیلے چمڑے پر مشتمل یہ ڈیزائن پشاوری چپل سے متاثرہ ہے۔

اسی طرح، ویب سائٹ پیج پر'رابرٹ' کا نام بھی ہٹا دیا گیا ہے، حالانکہ پیج کے یو آر ایل میں اب بھی رابرٹ کا ٹائیٹل موجود ہے۔

پاکستانی ڈیزائنر کیا کہتے ہیں؟ ہم نے اس معاملے پر کچھ مشہور پاکستانی ڈیزائنرز سے ردعمل جاننے کی کوشش کی کہ رابرٹ کو ڈسپلے پر دیکھ کر ان کا پہلا ردعمل کیا تھا؟ آیا اسے ڈیزائن کی چوری سے تعبیر کیا جانا چاہیے؟

کیا سر پال کو شروع سے ہی بتانا چاہیے تھا کہ یہ ڈیزائن کہاں سے متاثر ہو کر بنایا گیا اور آیا ہمارے پاکستانی ڈیزائنر تین سو پاؤنڈز میں رابرٹ خریدیں گے یا پھر مقامی پشاوری چپل ان کی ترجیح ہو گی؟

نومی انصاری میرا پہلا ردعمل واہ واہ تھا۔ مجھے اس پر بہت فخر ہوا لیکن پھر افسوس بھی کہ بطور ایک قوم ہمیں اپنی قدر نہیں۔

سینڈل کی تفصیلات میں کہیں بھی ملک، علاقے یا ثقافت کا نام و نشان تک نہ ہونے نے مجھے سب سے زیادہ افسردہ کیا۔

وہ لوگ کھلے عام اسے رابرٹ کا نام دے رہے تھے۔ اگر یہ انڈین ڈیزائن ہوتا تو سینڈل کی تفصیلات میں جلی حروف سے فخریہ طور پر بتایا جاتا۔

اسے آپ ڈیزائن کی چوری سے تعبیر نہیں کر سکتے لیکن اگر کہیں پر بھی پاکستان یا پشاور کا ذکر کر دیا جاتا تو آج اتنے سوال نہ کھڑے ہوتے۔

جب میں کراچی کے علاقے گزری سے اپنی مرضی کے مطابق بہت آرام دہ اور ہاتھوں سے بنی چپل پندرہ سو روپے میں خرید سکتا ہوں تو یہی سینڈل تین سو پاؤنڈز میں خریدنے والا میں سب سے بڑا بے وقوف ہوں گا۔

جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم اپنی نوعیت کی ایک واحد قوم ہیں جسے اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں۔

ہم اپنی ثقافت اور ورثے پر فخر کرنے کے بجائے ہر اس چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں جس پر 'میڈ ان فرانس، یو کے، سپین، انڈیا اور امریکا وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔

ہم جیسی کنفیوژ قوم کا لوگ یقینی طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

منیب نواز میری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ہمارے ڈیزائن سالوں سے چوری ہوتے آئے ہیں۔

پشاوری چپل کا معاملہ ہمارے منہ پر ایک اور تمانچہ ہے کیونکہ ہم اس وقت تک اپنی ثقافت کی ملکیت نہیں مانتے جب تک گورا اسے اپنا نہ لے۔

اگر ہم اپنی ثقافت کو اپنائیں تو ان لوگوں کو ہمیں کریڈٹ دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ میرا نہیں خیال کہ انہیں علاقائی کریڈٹ دینے کی ضرورت بھی ہے۔

عدنان پردیسی میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، بس اس مرتبہ یہ معاملہ لوگوں کی نظروں میں آ گیا۔

انہیں کریڈٹ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم لوگ بھی تو ہمیشہ ہی مغربی ڈیزائنوں کی چوری یا پھر ان سے متاثر' ہوتے رہے ہیں۔

کیا ہم نے کبھی اپنی مصنوعات کی تفصیلات میں ظاہر کیا کہ ہم نے اسے کہاں سے متاثر ہو کر بنایا؟ کبھی نہیں۔ تو پھر ان کا بھی ایسا کرنا درست ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ آپ اسے چوری نہیں کہہ سکتے۔ سر پال سمتھ نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ ان کا اپنا تخلیقی ڈیزائن تھا۔

شاید میں رابرٹ خریدوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان کا معیار بہت اعلٰی ہو گا۔

میں شاید انہیں اس لیے بھی خریدوں کہ ہماری چپل کے مقابلے میں ان کا سینڈل زیادہ آرام دہ ہو گا۔

آرام دہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی میں نے آج تک پشاوری چپل نہیں پہنی۔

وہ ہر کام ہم سے کہیں بہتر انداز میں کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی مارکیٹ بھی ایسی ہے کہ وہ اس قیمت پر بھی انہیں بیچ سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں