’مشرف کے ساتھ ان کے معاونین پر بھی مقدمہ چلایا جائے‘

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2014
جنرل مشرف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں ان کی مدد کرنے والے تمام افراد کے نام بھی سمن جاری کیے جائیں۔ —. فائل فوٹو
جنرل مشرف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں ان کی مدد کرنے والے تمام افراد کے نام بھی سمن جاری کیے جائیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے مطالبہ کیا ہے کہ اُن سویلین رہنماؤں اور فوجی حکام پر بھی سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے، جنہوں نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے جرم میں مبینہ طور پر ان کی اعانت کی تھی۔

جنرل مشرف پر سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست میں جنرل مشرف نے تین رکنی عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان تمام افراد کے نام سمن جاری کیے جائیں، جن سے ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے انہوں نے مشورہ کیا تھا۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے جاری کیے گئے اعلان کے مطابق جنرل مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے قبل اُس وقت کے وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنروں، چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمڈ فورسز، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اینڈ کور کمانڈرز سے مشورہ کیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان تمام پر بھی مقدمہ چلایا جائے اور انہوں نے یہ دلیل دی کہ اگر ان کو چھوڑ دیا گیا تو ان پر چلایا جانے والا یہ مقدمہ باطل ہوجائے گا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’آئین کے آرٹیکل چھ کی دوسری ذیلی شق میں واضح کیا گیا ہے کہ جرم کی ترغیب دینے والا اور اس میں شریک کار دونوں ہی یکساں طور پر ذمہ دار ہوں گے اور جس اصول کے تحت مجرموں کو سزادی جائے گی، اسی کے تحت انہیں بھی سزا دی جائے گی۔

پرویز مشرف کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1973ء کے سنگین غداری کی سزا کے ایکٹ کے تحت ضروری ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے منظور شدہ ایک شخص کی جانب سے تحریری شکایت کی جائے جس پر ہی عدالت کو سماعت کا اختیا ہوگا۔ آرٹیکل چھ کے سیکشن پانچ کے تحت وفاقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے سامنے شکایت کے ساتھ ملزمان کی ایک فہرست بھی پیش کرے۔

درخواست میں تحریر ہے کہ یہ ملزم کا قانونی حق تھا کہ اس کو انوسٹی گیشن رپورٹ اور وہ مواد جس کی بنیاد پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا، اور سپروائزری کمیٹی کی رپورٹ فراہم کی جاتی۔

انوسٹی گیشن ٹیم کے کچھ اراکین چاہتے تھے کہ جرم کی ترغیب دینے والے اور سازش بُننے والے تمام افراد کو بنیادی ملزم کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں لائیں، لیکن وہ حکام جنہوں نے یہ رپورٹ جمع کرائی انہوں نے اس کو رپورٹ میں شامل ہونے سے روک دیا اور وزیراعظم کی خواہش کے مطابق اس رپورٹ کو مکمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کو بہانے سے روک دیا گیا تھا، اور یہ بات ملزم کی نامزدگی کے حکومتی استحقاق کے خلاف جاتی ہے، اگرچہ انہیں (جرم کی ترغیب دینے والے اور سازش تیار کرنے والے) اُن کی شناخت کے ساتھ پیش کیا جاسکتا تھا۔

درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ ’’جب تک کہ تمام شریک ملزمان کے نام مدعاعلیہ (مشرف) جو فراہم نہیں کردیے جاتے، اس معزز عدالت کا دائرہ اختیار قابلِ اعتراض اور متنازعہ بنا رہے گا۔‘‘

عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ ایف آئی اے کی چار رکنی ٹیم کی جانب سے تیار کی گئی انکوائری رپورٹ جنرل مشرف کو فراہم کی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں