اسلام آباد: پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں گزشتہ روز پیر کو ایک متفقہ قراردار منظور کی گئی جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ پانی کے تنازعات کو باضابطہ طور پر ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرے۔

یہ قرارداد حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر صغریٰ امام کی جانب سے پیش کی گئی، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے ساتھ جامع مذاکرات یا پھر مذاکرات کی بحالی کے ایجنڈے میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے پانی کے تمام تنازعات کو شامل کیا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات میں پانی کے ایجنڈے کو پہلے ہی شامل کیا گیا ہے، اراکین کا اصرار تھا کہ اس قرارداد کو منظور کیا جانا چاہیے۔

اسی دوران سینیٹ میں سول سرونٹس کا ترمیمی بل 2014ء بھی منظور کیا گیا، جس کے تحت سول سرونٹس کو اپنی خدمات کے دوران غیر ملکی تنظیموں کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اس موقع پر سینیٹ کے تمام اراکین میں سے کچھ نے پیپلز پارٹی کی صغریٰ امام کے ایک نجی بل کی حمایت کی۔

اراکین کے خیال میں سول سرونٹس اور بیوروکریٹس کی پاکستان کے لیے وفاداری کا غیر منقسم ہونا ضروری ہے۔

سول سرونٹس کے 1973ء کے ایکٹ میں ایک نئی دفعہ 10-اے کو شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق "سول سرونٹ اپنی ملازمت کے دوران کسی غیر ملکی تنظیم، غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم، غیر ملکی مالیاتی ادارے اور غیر ملکی ڈونر ایجنسی کے لیے خدمات سرانجام نہیں دے گا۔"

پیپلز پارٹی کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے سول ملازمین کی جانب سے چھٹی لینے کے بعد غیر ملکی خدمات کو روکنے کے لیے یہ بل پیش کیا۔ اس طرح وہ دیگر سول سرونٹس کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر دوہرا فائدہ حاصل کررہے تھے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل نے ہندوستان کے ساتھ پانی کے تنازعات پر بات کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو ملک میں پانی کے مسائل کی جڑ قرار دیا۔

صغریٰ امام کا کہنا تھا کہ پاکستان پانی کے وسائل میں دنیا کے ملکوں میں اکتیسویں رینک پر کھڑا ہے، لہٰذا انڈیا کی جانب سے پاکستان کے پانی کے حق کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر یہ معاملہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تو یہ مزید بڑا تنازعہ بن جائے گا۔"

پیپلز پارٹی کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ دریاؤں میں پانی کے اخراج کے اوقات کا مکمل کنٹرول اس وقت ہندوستان کے پاس ہے اور یہ معاملہ پاکستان میں خوارک کے تحفظ کے حوالے سے سنگین ہوتا جارہا ہے۔

ایوان میں موجود جمعیت علمائے اسلام کے طلحہ محمود نے ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے پانی کا حق روکنے پر عالمی برادری سے مدد کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ق کے مشاہد حسین نے حکومت سے کہا کہ وہ ہندوستان کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے میں جلد بازی نہ کرے اور اس سال وہاں ایک نئی حکومت کے آنے کا انتظار کرے۔

بحث کے اختتام پر پی پی پی کے فرحت اللہ بابر کی جانب ایل این جی پر پیش کردہ ایک تحریک پر وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجلی کی خریداری کے لیے ابھی تک کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے ہیِں، اور میڈیا میں آنے والی رپورٹیں قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔

پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں رکاوٹ صرف تہران پر پابندیاں ہیں اور انہوں نے ایران سے کہا وہ اس منصوبے کو پابندیاں اٹھانے سے منسلک کرے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں تو صرف 30 مہینے کے اندر اندر ایران کی گیس ہمارے سسٹم میں شامل ہوجائے گی۔

تحریک پیش کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کراچی میں پورٹ قاسم کے مقام پر نئے ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر اور قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کے منصوبہ کی قیمت پر سوالات اٹھائے۔

اس دوران سینیٹ میں ایک اور قرار داد پیش ہوئی جس میں حکومت سے جیلوں میں قیدیوں اور بچوں کے لیے پیشہ وارانہ تعلیمی سہولیات کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی۔

پی آئی اے کی نجکاری پر بحث کے دوران جب حزبِ اختلاف کے اراکین کی جانب سے کورم کی کمی کی نشاندہی کرائی گئی تو ایوان کی کارروائی کو ملتوی کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں