اسلام آباد: وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) بجلی کی فراہمی کی سنگین قلّت، آنے والی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کے اضافے کے خطرے اور ریونیو اکھٹا کرنے میں بجلی کی کمپنیوں کی ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی زیرِ صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں اس موسم کی 80 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کے لیے 233.5 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سونے کی درآمد پر اکتیس مارچ تک پابندی برقرار رہے گی اور قیمتی پتھروں کی برآمدات کی اجازت دی گئی۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے اجلاس کو بتایا کہ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں پانچ ہزار میگاوٹ کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، اور گرمیوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ صورتحال ہاتھ سے نکل جائے گی، اس لیے کہ وزارتِ خزانہ نے بروقت ٹیرف سبسڈیز جاری کردی تھیں اور بجٹ میں کی گئی وسائل کی تقسیم کے مطابق فیول سپلائرز کو فنڈز فراہم کردیے گئے تھے، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ بجلی کے شعبے میں مسائل موجود ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’ہمارے پانی کے ذخائر میں کمی آئی ہے، اور یہ تشویش کی بات ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ صنعتی شعبے کو بجلی کی فراہمی میں اضافہ کیا جائے اور یوں صنعتوں نے بہتر نتائج دینے شروع کیے تھے جبکہ ستمبر میں تین سے چار گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ گھریلو صارفین کے لیے برقرار رکھی گئی تھی۔

وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اس کے بعد سے تقریباً پینتالیس سے پچاس منٹ کی لوڈشیڈنگ کا اضافہ ہوا تھا، لیکن بجلی کی کمپنیوں نے بلوں کی وصولی کے نظام کو بہتر نہیں بناسکیں، جب تک بلوں کی وصولی میں اضافہ نہیں ہوگا، اس کا بُرا اثر بجلی کی پیداوار پر پڑتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں حالیہ مہینوں کے دوران تقریباً 900 میگاواٹ تک کا اضافہ ہوجائے گا اور نئے پاور پلانٹس کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔

اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی کہ صورتحال پچھلے سال سے بھی بدتر نہیں ہوگی، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجلی کے بلوں کی وصولی کو بہتر بنانے سے ہی اس صورتحال میں بہتری آسکے گی۔

انہوں نے پانی و بجلی کے ایڈیشنل سیکریٹری کو ہدایت کی کہ بجلی کی کمپنیوں کے ساتھ بجلی کے بلوں کی وصولی کے معاملے پر بات کریں اور بجلی کی صورتحال کے بارے میں حقیقی تصویر اقتصادی رابطہ کونسل کے سامنے پیش کریں۔

گندم کی خریداری:

اقتصادی رابطہ کونسل نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے 2013-14 کی فصل کی 80 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا اور 233.488 ارب روپے کی رقم کی منظوری دی۔

گزشتہ سال سرکاری شعبہ گندم کی خریداری کے لیے مقررہ ہدف 79 لاکھ ٹن کے ہدف کے برعکس صرف 59 لاکھ پچاس ہزار ٹن گندم کی خریداری کرسکا تھا۔

گندم کی خریداری میں کمی کی وجہ کھلی منڈی میں گندم کی فراہمی میں قلت تھی۔ پچھلے تین سالوں سے سرکاری شعبے میں گندم کی خریداری کا اوسط ساٹھ لاکھ ٹن سالانہ رہا ہے۔

موجودہ فصل کے لیے مقررہ ہدف کے تحت پنجاب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پینتالیس لاکھ ٹن کی خریداری کرے گا، اس کے بعد پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) سولہ لاکھ ٹن اور سندھ کی جانب سے 13 لاکھ ٹن کی خریداری کی جائے گی۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان بالترتیب چار لاکھ پچاس ہزار ٹن اور ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن کی خریداری کریں گے۔

اقتصادی رابطہ کونسل کے اجلاس میں بتایا گیا کہ اس سال تین مارچ تک سرکاری شعبے کے پاس چوبیس لاکھ اڑسٹھ ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا، جس میں دس لاکھ ٹن پاسکو کے پاس موجود تھا۔

سونے کی درآمد:

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سونے کی درآمد پر اکتیس مارچ تک پابندی برقرار رہے گی۔ یہ پابندی اس سال جنوری میں غیرملکی زرِ مبادلہ کے اخراج کو قابو میں رکھنے اور ملکی کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے عائد کی گئی تھی۔

وزیرِ خزانہ نے وزارتِ تجارت کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کا ازسرِنو جائزہ لے اور ایک تفصیلی رپورٹ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے۔ انہوں نے وزارتِ تجارت کو قیمتی پتھروں کی برآمد پر سے پابندی ہٹانے کی ہدایت بھی کی۔

اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت نے بہت سی تعمیری اصلاحات متعارف کرائی تھیں،جن کے ذریعے معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے حوالے سے نتائج ظاہر ہونے لگے تھے۔

وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، افراطِ زر نیچے آیا ہے، غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں، روپے کی قیمت قابل تعریف حد تک آگئی ہے، اور اسٹاک مارکیٹ ترقی کررہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں