تھر میں اموات

14 مارچ 2014
موسمیاتی گردش سے قحط، خشک سالی کے باوجود ریاست نے بروقت ذمہ داری محسوس نہیں کی۔
موسمیاتی گردش سے قحط، خشک سالی کے باوجود ریاست نے بروقت ذمہ داری محسوس نہیں کی۔

اگر کسی کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کس طرح نہیں کرتے، تو بس اسے ایک نظر پاکستان پر ڈال لینی چاہیے۔ ذرا ضلع تھرپارکر میں اموات پر پھیلے غم و غصے پر غور کیجیے۔ میڈیا نے ابھی حال ہی میں اس پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی ہے کہ اندرونِ سندھ کے بعض حصوں میں خوراک کی فراہمی نہایت قلیل ہے۔ علاقہ قلتِ خوراک کے بحران سے دوچار ہے اور یہ ظاہر ہوچکا کہ صورتِ حال اتنی بدتر ہے کہ لوگ گھروں کو چھوڑ کر چل دیے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں بدستور تنقید کی زد میں ہیں۔ ہلچل مچی تو افسر شاہی بھی دوڑتی بھاگتی موقع پر پہنچی لیکن جس مدد کا وعدہ کیا تھا، وہ بروقت نہ دی جاسکی۔ علاوہ ازیں، سیاسی حلقوں کے لیے یہ معاملہ پوائنٹ اسکورنگ کا ایک اورموقع بنا۔ پنجاب نے مدد کی پیشکش کی لیکن اس بحران پرتاخیر سے آنکھیں کھولنے والی سندھ حکومت نے امداد مسترد کردی۔

اس کے بعد، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے حمزہ شہباز شریف نے نفرت بھرے لب و لہجے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پی پی پی کی صوبائی حکومت پر الزام لگایا کہ بچے بھوک سے مررہے تھے اور وہ میلہ منانے میں مصروف تھی۔

ان سب کے اندر جو کچھ کھوگیا وہ یہ حقائق کہ اگرچہ صوبے کے مختلف حصوں میں خوراک کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سے لوگ مررہے ہیں لیکن اس میں انتہائی شدید غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی جیسے عوامل بھی کار فرما ہیں۔

اس کی ذمہ دار ریاست ہے جو ان علاقوں کی تعمیر وترقی پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہی، اور جیسا کہ یہ محسوس بھی کیا گیا، منگل کو حیدرآباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سندھ کے وزیرِ اعلیٰ اور ان کی کابینہ سے استعفوں کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

مزیدِ برآں، خشک سالی اور اس سے قحط، روایتی طور پر اس علاقے میں موسمیاتی گردش کا معروف حصہ ہے لیکن ان سب باتوں کا علم ہونے کے باوجود ریاست نے روک تھام کے اقدامات کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

اور جیسا کہ قحط کے سبب ہونے والی نقل مکانی کو دیکھا جارہا ہے، یہ بھی موسمیاتی گردش کے سلسلے کا ہی ایک حصہ ہے، خشک سالی کے باعث مقامی باشندے، معاشی مقاصد کے پیشِ نظر علاقے سے عارضی نقل مکانی کیا کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو خود کو زرعی بنیاد پر قائم معیشت سمجھتا ہو، وہاں خوراک کی قلت سے لوگوں کی اموات یا بیمار ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

اور اب جیسا کہ امدادی سامان سے لدے ٹرک تھرپارکر پہنچنے لگے ہیں تو یہاں حکومت کو یاد دہانی کرانا ضروری ہے۔ اگرچہ اس وقت صورتِ حال بُری طرح بگڑ چکی اور ایسے میں مناسب مقدار میں خوراک تک رسائی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں تاہم ان حالات کے ساتھ طویل المعیاد منصوبے کے تحت نمٹنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت، تھر میں امدادی کارروائیوں کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے جو وعدے کیے، انہیں پورا ہونا چاہیے۔

وزیرِاعظم نواز شریف نے پیر کو اس حوالے سے ایک ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا اور ایسے میں علاقے کی ترقی پر سرمایہ کاری کے واسطے تمام سطح پر افسرِ شاہی کا شور مچانا بالکل ٹھیک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو وعدے اور حل تجویز ہوئے، طوفان تھمنے کے بعد ان کا حشر ماضی میں کیے گئے وعدوں جیسا ہرگز نہ ہوگا۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں حکومت اکثر عوام کی ضروریات پورا کرنے کے وعدے فراموش کردیتی ہے۔ کہیں یہ حکومتوں کی عدم دلچسپی تو نہیں جو موجودہ بحران کی شکل میں سامنے آئی ہے۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں