نئی مذاکراتی کمیٹی

15 مارچ 2014
ٹی ٹی پی سے حکومت کے مذاکرات، ایک قدم کہیں تو دوسرا کہیں اور پڑتا ہے۔، پی پی آئی فوٹو۔۔۔۔
ٹی ٹی پی سے حکومت کے مذاکرات، ایک قدم کہیں تو دوسرا کہیں اور پڑتا ہے۔، پی پی آئی فوٹو۔۔۔۔

نظر یہ آتا ہے کہ مذاکرات سے جُڑی ہر شے کا ایک قدم ایک سمت میں تو دوسرا دوسری سمت میں پڑتا ہے۔

وزیرِ اعظم نواز شریف نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے گھر جا کر، ٹی ٹی پی سے سے مذاکرات کے واسطے نئی کمیٹی کے اعلان سے قبل اس معاملے پر اعتماد میں لے کر، یہ اشارہ دیا کہ سیاستدانوں کی باہمی تلخیوں اورسیاسی دشمنیوں کے باوجود، کم ازکم عظیم تر قومی مفادات میں ملک کی سیاسی متحد ہے۔

بہرحال، یہ اچھا رجحان اسلام آباد پر پی پی پی کی حکمرانی کے آخری دنوں میں دیکھنے میں آیا تھا، جو جمہوری استحکام کے لیے نیک ہے اور اس سے تاثر ملتا ہے کہ دہائیوں پرانی خراب سیاست کے تلخ ایام، آخرِ کار اب دفن کیے جاچکے۔

اب پیشرفت زیادہ پیچیدہ ہوچکی: ٹی ٹی پی سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کی خاطر حکومت کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اصل چار رکنی کمیٹی نے بعض مفید خدمات انجام دیں اور ٹی ٹی پی سے معاملات کو سنجیدگی سے آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی اور اب وقت آگیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو پیشکش اور ان کی طرف سے جو مطالبات ہوتے ہیں، اس پر فیصلے کے واسطے، ایک نئی بااختیار کمیٹی قائم کی جائے۔

مسئلہ کمیٹی کی تشکیل کی وضاحت کے ساتھ ہے: اس کمیٹی میں چار حاضر سروس اور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور پی ٹی آئی سے وابستہ ایک سفارت کار بطور رکن شامل ہیں۔

پاکستان میں اختیارات کے عمل اور ناممکنات کے طالب علم کی حیثیت سے، یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نئی کمیٹی، پچھلی کمیٹی کے مقابلے میں کس طرح زیادہ بااختیار اور آزاد ہے۔

یہ ہوسکتا ہے کہ نئی کمیٹی میں بطور رکن شامل بیوروکریٹس، فاٹا اور قبائلی علاقوں کے معاملات کا زیادہ گہرائی میں علم رکھتے ہوں لیکن پاکستان میں افسر شاہی کا ڈھانچہ بیوروکریٹس کو اقدامات اٹھانے یا آزاد رہنے کی اجازت یا انہیں اپنے سیاسی حکام کے سامنے، اُن کے نظریات و خیالات سے متصادم تصورات بیان کرنے کی ہمت نہیں بخشتا ہے۔

اور اگر یہ واقعی مذاکرات کا نتیجہ خیز مرحلہ ہے، جیسا کہ حکومت کہتی ہے، تو پھر ظاہر ہوجائے گا کہ سیاسی حکومت، فوجی قیادت اور سیاستدانوں کے درمیان پس منظر میں ہونے والی سخن طرازی میں، کمیٹی ایک پردے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

نئی کمیٹی کی تشکیل کے معاملے کے سِوا، یہاں بدستور یہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ مذاکرات کے اصولی بنیادی نکات کیا ہیں اور کس طرح سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اختلافات کو منصفانہ انداز میں اس کے اندر طے کرے گی۔

ممکن ہے کہ شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی سے خود اس کی اپنی نامزد کمیٹی کی ملاقات کے دوران، طالبان اپنے مطالبات کی فہرست پیش کردیں، جس سے وہ اس بات کا اشارہ دے سکتے ہیں آخر ایک کامیاب معاہدے کی شکل کیا ہوسکتی ہے۔

لیکن ٹی ٹی پی کے مطالبات ایک بات، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت کس طرح پی ٹی آئی اور آرمی قیادت کو آن بورڈ اور اس کے علاوہ عوامی رائے عامہ کو اپنی طرف، رکھ سکتی ہے، یہ سراسر دوسرا معاملہ ہے۔

پی ٹی آئی، مسلم لیگ ۔ نون اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں، فی الوقت یہ کہنا سخت مشکل ہے۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں