گوادر پر سُست پیشرفت

16 مارچ 2014
بندرگاہ عالمی تجارتی اہمیت کی حامل لیکن بلوچ مسئلہ حل کیے بنا یہ صرف ایک خواب ہے۔
فائل فوٹو۔۔۔۔
بندرگاہ عالمی تجارتی اہمیت کی حامل لیکن بلوچ مسئلہ حل کیے بنا یہ صرف ایک خواب ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

چینی کمپنی کو بلوچستان کی گوادر بندرگاہ کا انتظامی اور آپریشنل کنٹرول سنبھالے تقریباً ایک برس ہونے کو آیا۔ چینی کمپنی کو گہرے پانیوں کی بندرگاہ کا اختیار سونپنے کا مقصد، گوادر اور مغربی چین کے درمیان بھاری لاگت سے ریلوے اور سڑک کے ذریعے اہم معاشی و توانائی گذرگاہ کی تعمیر سے قبل، اسے بھرپور قوت کے ساتھ فعال کرنا تھا۔

گوادر۔ چین گذر گاہ کی تعمیر کا معاہدہ وزیرِاعظم نواز شریف کے اُس دورہ بیجنگ میں طے پایا جو انہوں نے گذشتہ موسمِ گرما میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کیا تھا، اسی بنا پر تجارتی راہ گذر پر کام کا آغاز جلد ہونے کی امید کو بھی تقویت ملی تھی۔ تاہم، خیال ہے کہ بندرگاہ کی تعمیر پر چینی سرمایہ کاری میں ایک بڑی رکاوٹ بلوچستان کے اندر کی باغیانہ صورتِ حال ہے۔

اپنی موجودہ حالت میں یہ منصوبہ اس بات کی کلاسیکی مثال ہے کہ کس طرح حکومت معاشی ترقی کی کوششوں کو سیاست اور سلامتی کے معاملات سےعلیحدہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ اس منصوبے کے ساتھ جو سیاسی وعدے منسلک تھے، ان پر عمل درآمد ناکام رہا، جن کے بغیر منصوبے پر پیشرفت بدستور ابہام کا شکار ہے۔

چائنیزاووَرسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنیز کے ایک اہلکار نے حال ہی میں گوادر کا دورہ کیا، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ بندرگاہ کی جلد از جلد تعمیر سے وابستہ چینی مفادات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اب کہا جارہا ہے کہ چین بندرگاہ کی توسیع اور علاقے میں ایک ائیرپورٹ کی تعمیر سمیت بعض بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر متفق ہوگیا ہے۔ ان منصوبوں کی کُل تعداد نو ہے، جس پر مجموعی ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔

بعض چینی کمپنیوں نے تیل و گیس کے شعبے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے، گوادر میں آئل ریفائنریز کی تعمیر کے لیے اپنے منصوبوں سمیت متعلقہ حکام سے رابطے کیے ہیں۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ چینی کمپنیاں اپنے وہ منصوبے کب تک شروع کرپائیں گی، جن کی تکمیل کے لیے بندرگاہ کی تعمیر کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔

گوادر بندرگاہ خلیج کے دہانے پر اور دنیا بھر میں تیل کی نقل وحمل کے سب سے بڑے اور اہم سمندری گذرگاہ، آبنائے ہُرمز کے قریب واقع ہے۔ اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد، یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ گوادر اور باقی بلوچستان ایک بہت بڑے علاقائی معاشی و تجارتی مرکزمیں تبدیل ہوجائے گا۔

ساتھ ہی یہ افغانستان کے ذریعے، دنیا سے الگ تھلگ، وسط ایشیا کو بھی اس تجارتی مرکز سے منسلک کردے گا، ساتھ ہی گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کو خلیجی اور ایرانی تیل تک رسائی کے لیے مختصر ترین راستا بھی مل سکے گا۔

اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو اس سے اربوں ڈالر کی غیرملکی سرمایہ آئے گی، جس سے بلوچستان اور باقی پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کے ذریعے جنوب ایشیا اورمشرقی ایشیا کے درمیان رابطے بھی بڑھیں گے۔

لیکن ایسا ہونے کے لیے، اسلام آباد کو بلوچوں کی شکایتوں کا ازالہ کرکے علیحدگی پسندوں کو مرکزی دھارے میں لانا ہوگا، ساتھ ہی، لوگوں کو یقین دلانا ہوگا کہ نہ صرف وسائل پر ان کے حقوق کا احترام ہوگا بلکہ ان کے تمام تر دیگر تحفظات کو بھی دور کیا جائے گا۔

جب تک بلوچ اس منصوبے کو تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہوتے، فعال و مصروف گوادر بندرگاہ اور پاک۔ چین تجارتی گذرگاہ کا خواب بدستور ایک خواب ہی رہے گا۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں