ریاست اور معاشرے کی ناکامی

16 مارچ 2014
ریپ کا شکار لڑکی کی خود سوزی، پاکستان میں یہ جرم کبھی ریاست کی ترجیح نہیں رہا۔ 
فائل فوٹو۔۔۔
ریپ کا شکار لڑکی کی خود سوزی، پاکستان میں یہ جرم کبھی ریاست کی ترجیح نہیں رہا۔ فائل فوٹو۔۔۔

اس پرکوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ گذشتہ روز جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی کی خود سوزی، ریاست اور معاشرہ، سے ملنے والی دُہری اور بڑی ناکامی ہے۔ اول، وہ ایسے ملک میں زندہ تھی کہ جہاں شہری کی جسمانی حفاظت حکومتی ترجیحات کی فہرست میں کہیں بہت نیچے ہے، یہی ایک حقیقت پانچ جنوری کو اُسے مبینہ ریپ تک لے گئی۔

ذلت کی یہ صورت انتہائی دردناک ہے، اوپر سے ہمارے قدامت پسند معاشرے میں اس پر بات کرنا ممنوعہ موضوع ہے، ایسے میں زیادتی کے بہت سے متاثرین یا ان کے خاندان اپنے اندر اتنی ہمت ہی جُتا نہیں پاتے کہ تنہا جا کر پولیس کے پاس شکایت درج کراسکیں لیکن اس اٹھارہ برس کی متاثرہ لڑکی میں مبینہ ملزمان کے خلاف شکایت درج کرانے کی ہمت تھی۔

پاکستان میں انصاف کا پہیہ بھی عجیب راستوں پر چلتا ہے، جمعرات کو عدالت نے اس کیس کے مرکزی ملزم کی ضمانت منظور کرلی تھی اور یہی وہ وقت تھا جب وہ دوسری مرتبہ بھی ناکام ہوئی۔

لیکن اس کے باوجود وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لڑائی لڑنے پر پُرعزم تھی۔ وہ بیٹ میر ہزار تھانے پہنچی تاکہ اُس تفتیشی افسر کے خلاف اپنا احتجاج درج کراسکے، جس نے تفتیشی رپورٹ میں لڑکی کی طرف سے نامزد ریپ کے مرکزی ملزم کی بظاہر طرف داری کی تھی۔

ہم صرف یہ تصور ہی کرسکتے ہیں وہاں کیا ہوا ہوگا لیکن اس کے بعد تھانے کی حدود میں ہی لڑکی نے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگادی۔ اس کے بعد سے، وہ گذشتہ روز اپنی موت تک حالتِ جاں کنی میں تھی۔

بعض لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ریپ دھندلکوں میں لپٹا ایک ایسا جُرم ہے جس کے خلاف ریاست بے بس ہے۔ یہ مکمل طور پر درست ہے لیکن ہر ایسا ملک جہاں ریپ کے الزامات پر نہایت سختی سے تفتیش کی جاتی ہو اور استغاثہ ذمہ دار کو انصاف کے کٹہرے میں پہنچانے پر پُرعزم ہو، وہاں ریپ کے واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے۔

تاہم، اس ہولناک جُرم کو سختی سے کچلنے اور ریپ کے ذمہ داروں کو یہ ٹھوس پیغام دینا کہ اُن سے قانون کی بھرپور قوت کے ساتھ نمٹا جائے گا، پاکستان کے لیے یہ کبھی ترجیح نہیں رہا۔ ایسا اس معاشرتی رویے کی بنا پر ہے کہ جہاں جنسی جرائم کے گرد 'غیرت' کے نام پر ممنوعہ موضوع کا ہالہ قائم کردیا جاتا ہے۔

اس نوجوان لڑکی کی المناک موت اگر ایک طرف قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کی افسوسناک کہانی سناتی کرتی ہے تو دوسری طرف یہ موقع پر موجود اُن لوگوں کی بھی بے حسی بیان کرتی ہے جو لاچارگی کا شکار اس لڑکی کو پریشانی کے عالم میں خود سوزی کا اتنہائی قدم اٹھاتا دیکھتے رہے مگر اسے روکنے کو کوئی آگے نہ بڑھا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں