'طالبان خواتین اور بچوں کی رہائی چاہتے ہیں'

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2014
طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم۔ فائل فوٹو
طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی شوریٰ نے ان افراد کی فہرست دی ہے جن کو حکومت کی حراست میں اور طالبان ان کی رہائی چاہتے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی فہرست میں عورتیں، بچے اور بزگ افراد بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی شوریٰ نے ان بچوں، خواتین اور بزگ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور اس پیش رفت سے حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کو پیدا ہو گا۔

واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اس بات کی تردید کی جاچکی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کی حراست میں نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فوج حالیہ بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ نے احرار الہند کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اس سے ٹی ٹی پی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو گا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا طالبان نے احرار الہند تنظیم سے لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس تنظیم کے بارے میں کوئی علم نہیں تاہم وہ احرارالہند سے متعلق تحقیقات کررہے ہیں۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔

طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ امن مذاکرات کامیابی کی طرف گامزن ہیں، طالبان سے مذاکرات کے لیے مقام کے تعین کے بارے میں رابطہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کے مقام کے تعین پر دونوں طرف سے کوئی اختلاف نہیں تاہم دونوں جانب سے اس سلسلے میں تجاویز آرہی ہے۔ طالبان نے بھی اس حوالے سے اپنی تجاویز دی ہے۔

جماعت اسلامی کے سینئر رہنما نے انکشاف کیا کہ طالبان کی جانب سے ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اگر فوج جنوبی وزیرستان کا کچھ حصہ خالی کر دے تو وہاں بھی بات ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل حکومتی ٹیم اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے درمیان ملاقات کی ممکنہ تاریخ اور مقام کے تعین کے لیے مولانا سمیع الحق کی زیر قیادت قائم طالبان کی نامزد کمیٹی اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہفتے کو ملاقات ہوئی تھی۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طالبان کی جانب سے یہ ایک تجویز ہے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی شرائط لاگو نہیں کیں۔

انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے سے شروع ہونے کی امید ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے بنوں ایئرپورٹ کی بطور مقام تجویز پیش کی جبکہ طالبان مذاکرات کاروں نے شمالی وزیرستان کے علاقے میرام شاہ کو مقام کے طور پر تجویز کیا۔

طالبان کمیٹی نے ٹی ٹی پی شوریٰ سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بریفنگ دی اور دونوں فریقین نے بلا تاخیر امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر مکمل اتفاق کیا تاکہ شرپسند عناصر مذاکراتی عمل کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

مولانا سمیع نے چوہدری نثار سے ملاقات میں کہا تھا کہ طالبان مذاکرات میں انتہائی سنجیدہ اور سیز فائر کے قیام کے لیے پرعزم ہیں، 'وہ سیز فائر کی خلاف ورزی کرنے والوں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے'۔

یاد رہے کہ حکومت نے جنوری کے آخر میں کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے طالبان سے بھی ایسا کرنے کو کہا تھا۔

دونوں جانب سے نامزد کمیٹیوں کے اراکین کی فروری کے آغاز میں بات چیت شروع ہوئی لیکن ای دوران اس عمل کو دھچکا اس وقت لگا جب طالبان شدت پسندوں نے 23 فوجیوں کو قتل کردیا۔ ان فوجیوں کے قتل کے ردعمل کے طور پر فوج نے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔

تاہم بعدازاں بعد چیت کے بعد طالبان کی جانب سے سیز فائر کا اعلان کر دیا گیا جس کے ایک ہی ہفتے بعد بارہ مارچ کو حکومت نے طالبان سے براہ راست گفتگو کے لیے اک نئی کمیٹی کا اعلان کیا۔

کمیٹی کی سربراہی سیکریٹری پورٹ اینڈ شپنگ حبیب اللہ خٹک کریں گے جبکہ دیگر اراکین میں ایڈیشنل سیکریٹری فاٹا ارباب عارف، وزیر اعظم کے دفتر کے ایڈیشنل سیکریٹری فواد حسن فواد اور سابقہ کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں