اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت پر 3 مارچ کو ہونے والے حملے کی انکوائری سے ظاہر ہوا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چار سے پانچ تھی جن میں سے دو خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔

یہ انکوائری وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر مجاہد شیردل کی جانب سے کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ تین مارچ کو ہوئے اس حملے میں ایک ایڈیشنل جج رفاقت اعوان سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 29 زخمی ہوگئے تھے۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک دہشتگرد کی ہلکی داڑھی تھی اور اس نے جوگرز، جبکہ دوسرے دہشت گرد نے چپل پہنی ہوئی تھی۔ دونوں کی رنگت ایک جیسی تھی، اور ان میں سے ایک ہندوستانی لگ رہا تھا۔

اس کے علاوہ دیگر تین دہشت گرد پشتو ظاہر ہورہے تھے، جنہوں نے براؤن اور سفید رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے چار خودکار رائفلیں فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھیج دی ہیں، جن میں سے دو شدت پسندوں نے استعمال کیں اور دو ہی پولیس نے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ موقع سے 61 خالی گولیاں برآمد ہوئی جو پانچ مختلف ہتھیاروں فائر کی گئیں، جبکہ 12 کارتوس ایک منفرد ہتھیار سے فائر کیے گئے جو ان چار رائفلوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ 32 دیگر گولیاں جائے وقوع سے اٹھالی گئیں۔

شدت پسندوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی دو رائفلیں اس مقام کے کافی فاصلے سے برآمد ہوئی جہاں پر خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑایا تھا۔ ان میں سے ایک رائفل مکمل طور پر کام کررہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ "بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ دو رائفلیں خودکش حملہ آوروں کے پاس نہیں بلکہ دیگر دہشت گردوں کے پاس تھیں جنہوں نے انہیں استعمال کیا اور دوسرے دھماکے کے بعد موقع سے فرار ہوگئے"۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اے ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت 66 پولیس اہلکار عدالت کے احاطے میں اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے اور جس وقت حملہ ہوا 35 اہلکار وہاں موجود تھے۔

کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق ان میں سے تین پولیس اہلکار اس وقت اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھے، جبکہ نو اہکاروں کی جگہ تلاش نہیں کی جاسکی۔

انکوائری سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت حملہ ہوا پولیس وہاں ہتھیاروں کے ساتھ موجود تھی جن میں 16 ایس ایم جیز اور چھ ایم پی-5 ایس شامل ہیں، یا تو یہ اہلکار اپنی ڈیوٹی پر مامور رہے یا پھر انہوں نے خود کو ایک جگہ بند کرلیا اور فائرنگ کی آوازیں سن کر دور بھاگ گئے۔

مقتول جج رفاقت اعوان کے ریڈر نے جوڈیشنل انکوائری کے دوران اپنے بیان میں وزیرِ داخلہ اور پولیس کے ان دعووں کی مخالفت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جج اپنے ہی محافظ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ عدالت پر اس حملے کے کچھ روز کے بعد وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں دعویٰ کیا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج اپنے ہی محافظ کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔ پولیس نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ رفاقت اعوان محافظ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

تفتیشی آفسر ملک خالد نور نے اپنے بیان میں کہا کہ مقتول جلد کے ریڈر نے 8 بجر 30 منٹ پر سماعت شروع ہونے کے بعد کہا کہ انہیں باہر سے فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں اور جج کو ان چیمبر میں منتقل کردیا گیا۔

ریڈر نے کہا کہ مقتول جج کی ہدایت پر انہوں نے عدالت اور چیمبر کو لاک کردیا۔ نائب قاصد انیس اور کانسٹیبل بابر حسین کے ہمرا تھے جب مذکورہ جج کا محافظ چیمبر میں داخل ہوا۔

"مقتول جج رفاقت اعوان کو ان کی میز کے پیچھے بیٹھا دیا، جبکہ قاصد انیس جج کی میز کے سامنے شیشے کے دروازوں اور چیمبر کی کھڑیوں کا سامنے کرتے رہے"۔

ان کے مطابق بابر حسین شیشے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے تھے جب ایک زور دار دھماکے سے چیمبر کے شیشے ٹوٹ گئے۔

عدالتی ریڈر نے تفتیشی افسر کو بتایا کہ " کچھ دیر بعد میں نے کچھ لوگوں کے چلنے کی آوازیں سنی جو چیمبر کی جانب آرہے تھے میں نے ایک اور شخص کے ساتھ مل کر اندر سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں اندر آنے سے روکا جائے"۔

تاہم ریڈر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے چیمبر میں توڑ پوڑ کی اور جج کو نشانہ بنایا جس کے بعد وہ کمرے کے درمیان میں گر گئے۔ اور عدالتی کمرے کے ذریعے حملہ آور باہر چلے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بابر حیسن کی گن لوڈ تھی، لیکن اگر وہ فائر کرتے تو وہ حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے جو قد میں چھوٹے تھے اور اپنے ساتھ کلاشنکوف لے کر آئے تھے۔

نائب قاصد انیس احمد نے انکوائری آفیسر کو بتایا کہ باہر سے فائرنگ کی آوزیں سننے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج کو ان کے چیمبر میں لے جایا گیا۔

وہ اپنی میز پر بیٹھے تھے،جبکہ ان کے ریڈر خالد نور اور بابر حسین بھی چیمبر میں تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں