سعودی عرب: نقاب کی آڑ لے کر مقدمات میں جعلی خواتین پیش

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2014
طلاق، نان نفقہ اور وراثت کے مقدمات میں مدعی خواتین کی جگہ دیگر خواتین کو پیش کرکے مقدمات خارج کروانے کا انکشاف۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
طلاق، نان نفقہ اور وراثت کے مقدمات میں مدعی خواتین کی جگہ دیگر خواتین کو پیش کرکے مقدمات خارج کروانے کا انکشاف۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

جدہ: مقامی روزنامہ الوطن کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کی وزارت انصاف نے ایسی خواتین سے متعلق دس مقدمات سے پردہ اُٹھایا ہے، جن میں ان کی جگہ پر بعض دوسری خواتین نقاب کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عدالتوں میں پیش ہوتی رہی ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین کی جگہ دوسری خواتین پیشی کے واقعات زیادہ تر فیملی مقدمات میں سامنے آئے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے متعلق ذرائع نے بتایا کہ بعض مردوں نے اپنی بیگمات یا خاندان کی دیگرخواتین کی جگہ بعض دوسری خواتین کو عدالتوں میں پیش کیا، تاکہ وہ اپنے خلاف دائر کردہ مقدمات واپس لینے کے لیے انہیں استعمال کرسکیں، نقاب کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان خواتین نے عدالت میں خود کو مدعی خواتین کہہ کر ان دعووں کو واپس لے لیا۔

ان مقدمات میں اکثریت طلاق، نان نفقہ، وراثت اور اس طرح کے دیگر مقدمات کی ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس طرح کے زیادہ تر واقعات جدہ، ریاض اور مکہ شہر سے سامنے آئے۔

نقاب کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس طرح کی جعلسازیوں کا انکشاف اس وقت ہوا، جب مدعی خواتین نے بعد میں عدالتوں کے سامنے اپناموقف پیش کیا کہ ان کی طرف سے اپنے شوہروں کے خلاف دائر کردہ مقدمات بلاجواز واپس لے لیے گئے، حالانکہ وہ یہ مقدمات جاری رکھنا چاہتی تھیں۔

ایسی بہت سی شکایات سامنے آئیں تو وزارت انصاف نے تفتیش شروع کی، اس کے بعد اصل کہانی سامنے آگئی۔

مقدمات واپس لینے کے لیے عدالتوں میں پیش ہونے والی خواتین اصلی خواتین نہیں تھیں بلکہ شوہروں کی طرف سے کیا گیا جعلی بندوبست تھا۔

سعودی گزٹ کے مطابق ایک وکیل خالد سعید الشاہرانی نے اس بارے میں بتایا کہ کچھ مرد حضرات اپنی مطلقہ اہلیہ یا طلاق کی خواہشمند یا نانق نفقے کے لیے اہلیہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمات میں اپنے حق میں فیصلے کروانے یا ان مقدمات کو واپس لینے کے لیے اپنی رشتہ دار خواتین کوعدالت میں اپنی اہلیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو ان کی جگہ دعوے کو واپس لینے کا بیان دیتی ہیں۔

خالد سعید نے کہا اگر جعلسازی کے جرم میں ملوث افراد پکڑے گئے تو اصلی اہلیہ کی جگہ پیش ہونے والی خواتین کے خلاف بھی جعلسازی اور دھوکہ دہی کے مقدمات بن سکیں گے۔

انہوں مطالبہ کیا کہ عدالتوں میں خواتین کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات لیے جائیں۔

عدالتی اصلاحات کے پروجیکٹ کے سربراہ مجید الادوان کا کہنا ہے کہ فنگر پرنٹ سسٹم نیشنل انفارمیشن سینٹر کی جانب سے ڈیٹا کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔

خالد سعید الشاہرانی نے بتایا کہ ایک شخص جس کی اہلیہ وزارت تعلیم میں ملازمت کرتی تھیں، اس نے اپنی اہلیہ کی جگہ اپنی بہن کو بھیج کر ملازمت سے جلد ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی۔ اس شخص کو اپنی اہلیہ کے کام کرنے پر سخت اعتراض تھا، اور وہ چاہتا تھا کہ وہ یہ ملازمت چھوڑ دیں۔

الشاہرانی نے کہا کہ ’’خوش قسمتی سے اس شخص کی اہلیہ کو محکمہ تعلیم کی جانب سے فون کال موصول ہوئی اور انہوں نے اپنی جگہ پیش ہونے والی خاتون کی طرف سے دی گئی ریٹائرمنٹ کی درخواست کو روک دیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حقیقی اہلیہ یا مدعیہ کے طور پر پیش ہونے والی خواتین کو گواہوں کی طرف سے شناخت کیا جانا چاہیٔے، اس کے بعد عدالت کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیٔے۔

تبصرے (3) بند ہیں

m naseem Mar 18, 2014 08:27pm
sir this is totaly drama. agar aisa hota to Allah kabhi parday ka hukam na daita.
m naseem Mar 18, 2014 08:30pm
yeh on kay qanoon kee khami ho saktee hay.parday ka hukam Allah ka hay iss main koi raay nahi dee ja saktee.
Ahmed Mar 19, 2014 03:38pm
@m naseem: پردے کا حکم ہے نقاب کا نہیں۔