اسلام آباد ہائی کورٹ میں خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج

19 مارچ 2014
سابق فوجی حکمران ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کے مقدمے کو فوجی عدالت میں منتقل نہ کرکے انہیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
سابق فوجی حکمران ریٹائیرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کے مقدمے کو فوجی عدالت میں منتقل نہ کرکے انہیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کردیا ہے، جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ سنگین غداری کا مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے اکیس فروری کو جنرل مشرف کی ایک درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس میں انہوں نے عدالت سے کہا تھا کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے متعلق ان کے مقدمے کو فوجی عدالت کو منتقل کردیا جائے۔

وکیل صفائی ڈاکٹر خالد رانجھا اور فیصل حسین کے ذریعے منگل کو دائر کی جانے والی پٹیشن میں سابق فوجی حکمران نے دلیل دی ہے کہ وہ اکتوبر 1999ء میں کولمبو، سری لنگا کے سرکاری دورے پر گئے تھے، جہاں انہوں نے سری لنکن آرمی کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

ریٹائرڈ فوجی سربراہ نے اپنی پٹیشن میں مزید کہا کہ بارہ اکتوبر 1999ء کو جب وہ اپنی سرکاری ذمہ داری کی ادائیگی کے بعد پاکستان واپس لوٹ رہے تھے، تب انہیں ان کے عہدے سے محروم کردیا گیا تھا، اور ان کی جگہ جنرل ضیاءالدین کو نیا فوجی سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور دیگر نے ان کے جہاز کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت نہ دے کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ان کے جہاز کے پائلٹ مجبور ہوگئے تھے کہ جہاز کو انڈیا میں لینڈ کرائیں ورنہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے جہاز گر کر تباہ ہوجائے گا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم کی جانب سے کی گئی اس کارروائی کے جواب میں مسلح افواج کا ایک بھرپور ردّعمل سامنے آیا اور بالآخر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔فوج کے قبضہ کرلینے کے بعد ریٹائرڈ جنرل خواجہ ضیاءالدین کو ان کے عہدے سے معزول کردیا گیا اور جنرل مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔

جنرل مشرف کی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے بارہ اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضے اور بعد میں اُٹھائے گئے دیگر اقدامات کی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق کی گئی تھی۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ بعض وجوہات کی بناء پر جنرل مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور نو منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے بعد جنرل مشرف نے 18 اگست 2008ء کو صدر پاکستان کے عہدے سے استعفےٰ دے دیا تھا۔

پٹیشن کے مطابق 2007ء کا فیصلہ اس وقت کی حکومت کی جانب سے لیا گیا تھا۔

دائر کی گئی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی سال گزرجانے کے بعد موجودہ حکومت نے اب جاکر یہ فیصلہ کیا کہ جنرل مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلایا جائے۔

درخواست میں تین ریٹائرڈ فوجی افسروں جنرل خالد منیر خان، جنرل مظفر افضال اور جنرل خالد ظہیر کی مثال دی گئی ہے، جو 2004ء سے 2008ء کے درمیان ریٹائیر ہوئے تھے اور اب وہ قومی احتساب بیورو (نیب) تحت مقدمے کا سامنا کررہے تھے،ان کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت فوجی عدالت میں منتقل کردیے گئے تھے۔

جنرل مشرف کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت فوجی عدالت میں ان کے مقدمے کو منتقل نہ کرکے آئین کے آرٹیکل پچیس اور آرٹیکل 10-اے میں دیے گئے منصفانہ مقدمے کی سماعت کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے حکم کو مسترد کرے اور وفاقی حکومت کو ہدایت کرے کہ اس مقدمے کو فوجی عدالت منتقل کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی بینچ اس پٹیشن کی سماعت بیس مارچ کو کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Israr Muhammad Mar 19, 2014 01:46pm
‏ ‏سب‏ ‏تاخیری‏ ‏حربے‏ ‏ھیں‏ ‏مشرف‏ ‏عدالت‏ ‏کا‏ ‏وقت‏ ‏برباد‏ ‏کررہے‏ ‏ھیں‏ ‏اور‏ ‏موجودہ‏ ‏درخواست‏ ‏دراصل‏ ‏اقبال‏ ‏جرم‏ ‏ھے‏ ‏یعنی‏ ‏کہ‏ ‏میں‏ ‏یہ‏ ‏کام‏ ‏کیا‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏مجھ‏ ‏پر‏ ‏مقدمہ‏ ‏فوج‏ ‏چلائے‏ ‏کتنی‏ ‏افسوس‏ ‏کی‏ ‏‏ ‏بات‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏ایک‏ ‏سابقہ‏ ‏جنرل‏ ‏ایسی‏ ‏بات‏ ‏کہہ‏ ‏رہا‏ ‏ھے‏ ‏ایمرجنسی‏ ‏ملک‏ ‏لگائی‏ ‏گئی‏ ‏تھی‏ ‏اور‏ ‏مقدمہ‏ ‏فوج‏ ‏چلائے‏ ‏عجب‏ ‏منتق‏ ‏ھے‏ ‏
MALIK Mar 19, 2014 07:33pm
@Israr Muhammad: AAP NE KITNI AASANI SE CHAR LINE MAEIN MEIN DOOSRON KI ZUBAN BOL GAYEN AUR KISI KO MULZIM BHI TAHRA DIA. KABHI IMANDARI SE SOCHIE GA ZAROOR KE KIA AAP SAHIH KAH RAHEN RAHEN KIA HAMEN IS SHAKHS PE COMMENT KARANA CHAHIE YA KHAMOSH RAHNA CHAHIE
Israr Muhammad Mar 20, 2014 01:49am
@MALIK: فوج‏ ‏یا‏ ‏فوجی‏ ‏کا‏ ‏کام‏ ‏حکومت‏ ‏کرنا‏ ‏نہیں‏ ‏فوج‏ ‏ایک‏ ‏ماتحت‏ ‏ادارہ‏ ‏ھے‏ ‏اس‏ ‏کا‏ ‏کام‏ ‏حکومت‏ ‏وقت‏ ‏کا‏ ‏حکم‏ ‏ماننا‏ ‏ھے‏ ‏نا‏ ‏کہ‏ ‏ایک‏ ‏منتحب‏ ‏حکومت‏ ‏کو‏ ‏حتم‏ ‏کرکے‏ ‏گھر‏ ‏بیجدیں‏ ‏‏جنرل‏ ‏مشرف‏ ‏نے‏ ‏نوازشریف‏ ‏کی‏‏ ‏منتحب ‏حکومت‏ ‏حتم‏ ‏کی‏ ‏اور‏ ‏ائين‏ ‏تھوڑا‏ ‏اور‏ ‏انکو‏ ‏ایک‏ ‏من‏ ‏گڑھت‏ ‏مقدمہ‏ ‏پہلے‏ ‏فید‏ ‏اور‏ ‏بعد‏ ‏میں‏ ‏جلاوطن‏ ‏کیاگیا یہ‏ بات‏ ‏1973‏کے‏ ‏ائين‏ ‏کے‏ آرٹیکل‏ ‏6 ‏میں‏ ‏صاف‏ ‏لکھی‏ ‏گ‏ئ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏ائین‏ ‏توڑنا‏ ‏سنگین‏ ‏عداری‏ ‏ھے‏‏ ‏اور‏ ‏اسکی‏ ‏سزا‏ ‏پھانسی‏ ‏ھے ‏اور‏ ‏ہمارے‏ ‏کمانڈو‏ ‏صاحب‏ ‏نے‏ ‏یہ‏ ‏کا‏م‏ ‏دو‏ ‏مرتبہ‏ ‏کیا‏ ‏ھے‏ ‏ھم‏ ‏یہ‏ ‏بلکل‏ ‏نہیں‏ ‏چاھتے‏ ‏کہ‏ ‏مشرف‏ ‏کو‏ ‏سزا‏ ‏دی‏ ‏جائی‏ ‏ھم‏ ‏صرف‏ ‏یہ‏ ‏چاہتے‏ ‏ھیں‏ ‏کہ‏ ‏سیاسی‏ ‏لوگوں‏ ‏کی‏ ‏طرح‏ ‏ایک‏ ‏فوجی‏ ‏بھی‏ ‏عدالت‏ ‏کے‏ ‏سامنے‏ ‏پیش‏ ‏ھوں‏ ‏