پہلی چیخ جو صحرائے تھر میں گونجی، وہ مرتے موروں کی تھی جو ہوائوں میں پر کھول کر ناچنے کے بجائے تڑپ تڑپ کر تپتی ریت پہ جان دے رہے تھے۔

موروں کے مرنے پہ یا تو سندھی میڈیا چیخ اٹھا تھا یا پھر کچھ مقامی لوگ تڑپ اٹھے تھے۔ مگر وہ حکمران جن کی حکومت گھر کے ٹی وی فریموں، ٹوئٹر اور موبائلوں پہ گرجنے برجنے تک محدود ہو ان کو کیونکر پتہ چلتا کہ اب کی رت اس صحرائے تھر پہ بہت بھاری پڑنی والی ہے. موروں کے ساتھ گھر کے آنگن میں ناچنے والے تھری مائوں کے جگر کے ٹکڑوں پہ بھی بھوک کی قیامت اترنے والی ھے۔ جو موروں کی چیخ پہ تڑپ اٹھتے تھے انکے بچے بھوک اور بیماری سے تھک ہار کر انکے ہاتھوں میں ہی دم دیں گے یہ شاید ان تھر باسیون کو بھی پتہ نہیں تھا۔

مرتے موروں کی کہانی کو حکومتِ سندہ نے کس طرح برتا یہ تو گر اب بھوک میں مرتے بچوں کے لیئے ان کی تشویش کو مثال بنا کے دیکھیں تو خوب سمجھ آ جائے گی۔ بھٹووں کی پیپلزپارٹی اب ماضی ہوئی مگر وہ شاہزادانِ تختِ لہور کی گڈ گورنسس کی دیومالائی داستان کی ہلکی سی بازگشت بھی تھر کے باسیوں تک پہنچنے نہ پائی۔

’’مارو تھر برسیو رےــ‘

جب بھی تھر کے آسمانون پہ بجلی چمکتی اور بادلوں کا رخ صحرائے تھر کی جانب ھوتا تو میرپورخاص میں امیروں کے گھروں میں جھاڑو برتن کرکے روزی روٹی کمانے والی تھری عورت کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلتا اور اسکی آنکھوں کے کونے گیلے ہو جاتے۔ یہ ہم نے بچپن سے اپنے گھر میں ہوتے دیکھا کہ وہاں کسی بادل برسنے کی خبر آئی اور یہاں ماسی کی آنکھوں میں ساون اتر آیا۔

یہ ان دنوں کی بات تھی جب تھر جانے کے لیئے نہ کوئی پکی سڑک بنی تھی اور نہ ہی بارش کی خبر سنتے ہی مقامی سیاح، لڑکے بانکے، چھیل چھبیلے، کاندھوں پہ تھیلا سجائے گروپس کی شکل میں بارشوں سے نخلستان بننے والے تھر کی جانب چل پڑتے۔

سوکھے کا تھر، اس صحرائےِ تھر سے یقیناً بہت مختلف ہوتا جو بارشوں میں اک دم سے نخلستان بن جاتا۔ مگر جن دنوں میں تھر قحط سالی کا شکار ہوتا ہے وہان زندگی یوں بھی مشکل ھو جاتی ھے کہ ریت کے اڑتے بادلوں میں تھری صرف پانی ہی نہیں جوانی و زندگی کا احساس بھی کہیں کھو دیتے ہیں۔

بارشوں کا سوکھا پن خوفناک ڈائن کی مانند کس طرح ایک تھری مرد و عورت کی زندگی کس طرح چاٹ رہا ہوتا ہے یہ کندھے پہ تھیلا لٹکائے دیسی سیاحوں کے بجائے ان عورتوں سے پوچھا جائے تو بہتر ہے جو سورج نکلنے سے پہلے ہی پانی کے برتن لیئے صحرا کی طرف چل پڑتی ہیں۔

منہ اندھیرے کنویں سے پانی کھنچنے کے لیئے باری کے انتظار میں وہ سورج کا تڑکا اسی کنویں کی منڈیر پہ دیکھتی ہیں۔ کنواں سوکھا ہو تو پانی کھینچنے کے لیے گدھے یا کسی اور جانور کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

یہ پانی پیاس تو کیا بجھاتا ہے اس سے زندگی ضرور دھکیلی جاتی ہے۔ اس دھکیلی جانے والی زندگی کو صحرائے تھر کے کنووں کا یہ کھارا پانی کتنا روگی بنادیتا ہے۔ ’’مھنجے تھر جو حال جے پچھندیں روئی پوندیں روئی پوندیں‘‘

(میرے تھر کا حال جو پوچھو گے رو پڑو گے رو پڑو گے) یہ آج نہیں کئی سال پہلے تھر کے اک شاعر نے لکھا تھا اور پھر برسوں تک یہ گایا ہوا گیت صحرائے تھر کے باشندوں کی آواز میں تھر کا شناختی کارڈ بنا رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ میڈیا بھی تھر میں زہر بنی زندگی سے بے خبر نظر آتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بھوک اور قحط کی وجہ سے ان نقل مکانیوں اور اموات کی داستان نئی نہیں ھے مگر اس سے انکار کہاں ممکن ھے کہ جو کچھہ میڈیا دکھا رہا ہے وہ مصنوعی نہیں ھے۔

یہ بھی جھوٹ نہیں کہ اگست میں ہی تھر میں پڑنے والی بارشوں کے حساب سے آئندہ سال کے لیئے قحط کا اعلان کر دیا جاتا ھے اور اس دفعہ جب حکومت کی طرف سے کوئی متوقع اعلان نہ ہوا تو سیپٹمبر میں ہی ڈان اخبار میں وہ رپورٹ چھپی جس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے متوقع قحط کی نشاندھی کرتے ھوئے پیشگی بندوبست کا مطالبہ کیا تھا۔

مگر کیا کیا جائے حکومت سندہ کا جو اک ایسی کشتی کی مانند دکھئی دیتی ھے جو قسمت کے سہارے چلی جا رہی ھے، پیشگی بندوبست تو دور کی بات اب جب لگ بھگ دو سو سے زائد بچوں کی اموات کی تصدیق کی جا چکی ھے تب بھی وزیر اعلیٰ بجائے اسکے کہ روتی ماؤں کے سر پہ ھمدردانہ شفقت کا ھاتھ رکھیں، دبئی سے ملے والے آرڈرز کی تکمیل کے لیئے مخدوم زادوں کی عیادت کو چل پڑتے ہیں جنکی ناراضگی پارٹی کے لیئے صحرائے تھر کے ان بھوک سے بلکتے مرتے بچون کی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔

تھر کی پریشانی یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت جس پارٹی کے آرڈرز کی بدولت چلتی ھے اس کی ہائی کمان یا تو دبئی بیٹھی ریموٹ کنٹرول سے سندھ کی سیاسی بگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے یا پھر برخوردار نے ٹوئٹر پہ سیاسی بیان بازی کا مورچہ سنبھالے ہوا ہے۔

اب انکو کون سمجھائے کہ بھوک سے مردہ بچے ٹوئْٹر پڑھنا جانتے ہیں نہ ھی انکو گودی میں اٹھائے مرتا دیکھنے والی ماؤں کی صدائیں دبئی پہنچ پا رھی ھیں، اس لیئے انکا مرنا طے ہے۔ اس لیئے میڈیا سے بھی گذارش کہ بار بار ان روتے تڑپتے، بھوک سے بلکتے بچوں کے امیجز دکھا کر ہمارہ سکون برباد نہ ہی کرے تو اچھا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں