ہیگ: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز پیر کو امریکا سے کہا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کو حل ہونا چاہیے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ہندوستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دوطرفہ طریقہ اختیار کرنے سے گریز کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے تیسری طاقت کو شامل نہیں کرتا تو امریکہ کو خطے کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن ناصرف پاکستان، بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان امن کونسل سے مذاکرات کرکے خطے میں امن قائم کرنے کا خواہاں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات کو پٹری سے نہیں اترنا چاہیٔے۔

اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں ڈرون حملے بند کرنے کی امریکی پالیسی کی تعریف کی اور کہا کہ یہ پالیسی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔


تیسری جوہری سلامتی کانفرنس سے خطاب


اس سے قبل نواز شریف نے ہیگ میں تیسری جوہری سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہ پاکستان جوہری سلامتی کو انتہائی اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی سے منسلک ہے۔

‘پاکستان ذمہ دار جوہری ریاست ہے، ہم ایٹمی عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتے ہیں اور کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھیں گے'۔

وہ پیر کو ہیگ میں تیسری جوہری سلامتی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

جوہری سلامتی کانفرنس میں 23 ملکوں کے علاوہ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین ‘ عالمی جوہری توانائی ایجنسی اور انٹرپول شریک ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جوہری سلامتی کے کلچر کو فروغ دینے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

‘ہمارے فیصلے اور عزم سے تمام اقوام جوہری سلامتی کے لئے متحرک ہوئیں۔ جوہری سلامتی ہم سب کی قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہے'۔

'امریکی صدر بارک اوباما کے جوہری سلامتی کے لئے اقدامات قابل ستائش ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ جوہری دہشتگردی کے ممکنہ خطرے سے مل کر نمٹنا ہوگا۔

'ہمیں جوہری ٹیکنالوجی سے استفادہ کے ساتھ ساتھ تابکاری خطرات سے بھی چوکس رہنا ہوگا۔ جوہری اثاثوں اور مواد کی حفاظت کے لئے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی'۔

شریف نے کہا کہ پاکستان ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور 'ہم ایٹمی عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتے ہیں'۔ '

'جوہری سلامتی انتہائی اہم ترجیح ہے کیونکہ یہ قومی سلامتی سے منسلک ہے۔ جوہری نظم و ضبط کے ساتھ کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں صنعت، ہسپتالوں اور تحقیق کے لئے ریڈیو ایکٹو ذرائع کی ضرورت ہے۔

'جنوبی ایشیا کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لئے امن و استحکام کی ضرورت ہے۔ عوام کی خوشحالی کے لئے جوہری نظم و ضبط کے خواہاں ہیں'۔

شریف نے کہا کہ پاکستان کا جوہری سلامتی کا نظام نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے زیر انتظام مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت پانچ ستونوں پر قائم ہے۔

'یہ مربوط انٹیلی جنس حکومت کی سخت ریگولیٹری اور مواد کی برآمد پر قابو پانے کے لئے جامع نظام اور فعال عالمی تعاون پر مبنی ہے'۔

'ہمارا جوہری سلامتی کا نظام جوہری تحفظ‘ مواد پر قابو پانا اور احتساب‘ سرحدوں پر کنٹرول اور تابکاری کی صورت میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے'۔

'ہمارا جوہری مواد اور اثاثے محفوظ ہیں‘ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لئے تہہ در تہہ حفاظتی نظام موجود ہے جوکہ اندرونی و بیرونی اور سائبر حملوں سے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے'۔

‘ ہم نے سنٹر آف ایکسیلنس قائم کیا ہے جس میں جوہری سلامتی‘ جوہری تحفظ اور عملے کی صلاحیتوں سے متعلق خصوصی کورسز کرائے جارہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جوہری مواد کی سمگلنگ روکنے کے لئے کئی داخلی اور خارجی مقامات پر تابکاری کے ذریعے پتہ چلانے کا نظام قائم کر رکھا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جوہری سلامتی سے متعلق عالمی تعاون میں آئی اے ای اے کی اہم ذمہ داری اور مرکزی کردار ہے۔

'پاکستان جوہری سلامتی کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے آئی اے ای اے سے مل کر کام کر رہا ہے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ توانائی بحران پاکستان کے لئے انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔

‘ہم معیشت کی بحالی کے لئے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے اصولوں کے مطابق پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے عالمی تعاون چاہتے ہیں'۔

'پاکستان کو سپلائرز گروپ سمیت تمام عالمی معاہدوں پر شامل کیا جانا چاہیے۔ جوہری سلامتی ہم سب کی قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہونی چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم حساس مواد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر قابو پانے کے حوالے سے اقدامات کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی 1540 کو باقاعدہ رپورٹیں بھیجتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم جوہری اثاثوں کے 2005ء کے معاہدے میں ترمیم کی توثیق کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں مستقبل میں جوہری سلامتی کے لئے پیشرفت کو مضبوط بنانا چاہیے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں