گلاب گینگ - ریویو

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2014
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

فلم کا پہلا نصف حصّہ ختم ہونے تک میرے ذہن میں صرف ایک ہی خیال گھومتا رہا، یہ فلم میں نے پہلے بھی دیکھی ہے اور ایک بار نہیں کئی بار دیکھی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں اداکار ہی نہیں بلکہ ان کی جنس بھی مختلف تھی۔

ڈائریکٹر 'سومک سین' کی ڈائریکشن میں، سہارہ مووی اسٹوڈیوز اور بھرت شاہ کی ملٹی سٹار پیشکش، 'گلاب گینگ' نئی پیکنگ میں پرانا مال ثابت ہوئی- کہانی کی تھیم وہی پرانی رابن ہڈ سٹائل کے مسیحا کی ہے، بس اس میں مسیحا گلابی ساڑی پہنتی اور لاٹھی چلاتی ہے اور وقت پڑنے پر ڈانس بھی کرلیتی ہے۔

بولی وڈ میں تقریباً ہر دوسری فلم کا موضوع اچھائی اور برائی کی جنگ ہی ہوتا ہے، جس میں بلآخر جیت اچھائی کی ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اب تک یہ جنگ بولی وڈ کے مرد اداکار لڑتے آئے ہیں، پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اچھائی اور برائی دونوں کی علمبردار عورتیں دکھائی گئی ہیں۔

فلم کی شروعات اداکار انیل کپور کی آواز میں ہندوستان کے ایک پسماندہ گاؤں، مدھو پور کی رہنے والی ایک بچی رجّو کی کہانی سے ہوتی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی مگر اس کی سوتیلی ماں راستے کی دیوار بن جاتی ہے، آگے جا کر ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہی رجّو دیدی (مادھوری ڈکشت) فلم کا مرکزی کردار ہے، جس کی سربراہی میں 'گلاب گینگ' نامی ایک گروہ ظلم و زیادتی کی ماری عورتوں کو ناصرف پناہ دیتا ہے بلکہ گاؤں والوں کی دیگر معاملات میں بھی مدد کرتا رہتا ہے- گاؤں کے کرتا دھرتا اس گروہ سے ڈرتے ہیں- رجّو دیدی وہ مسیحا ہے جو گاؤں والوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو روکنے کے لئے، بدعنوان سیاستدان، سمترا دیوی (جوہی چاولہ) سے لڑ پڑتی ہے اور اس طرح خیر و شر کی قدیم جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

مادھوری ڈکشت نے فلم میں وہی کام کیا ہے جو اب تک امیتابھ بچن، سنی دیول اور سلمان خان وغیرہ کرتے آئے ہیں، حتیٰ کہ ایکشن سین بھی انہی کی طرح فلمائے گئے ہیں- فلم میں ان کی اداکاری نہ ہونے کے برابر ہے، اکثر موقعوں پر ان کا چہرہ سپاٹ نظر آیا، بعض اوقات وہ ڈائیلاگ بولنے سے پہلے کچھ سوچتی نظر آئی ہیں، شاید وہ رجّو کے کردار کو پوری طرح سمجھ نہیں پائیں- دوسرا فلم کا مرکزی کردار ہونے کی حیثیت سے انہیں ضرورت سے زیادہ ایکشن سین کرنے پڑے ہیں جو قطعاً غیر ضروری تھے- سننے میں آیا ہے کہ ایکشن مناظر فلمانے کے لئے مادھوری کو مارشل آرٹس کی خصوصی تربیت لینی پڑی۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

دوسری جانب فلم کے منفی کردار، سمترا دیوی(جوہی چاولہ) کو اگر اگلا مرکزی کردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا- گلاب گینگ، مادھوری اور جوہی کی ایک ساتھ پہلی فلم ہے- فلم میں جوہی کی اداکاری مادھوری ڈکشت سے کہیں بہتر رہی- جوہی نے، ایک کینہ پرور، شاطر اور بدعنوان سیاستدان کا کردار بہت خوبی سے ادا کیا ہے- انہوں نے خود پر لگے نٹ کھٹ، معصوم اور ہمیشہ مسکراتی ہوئی جوہی چاولہ کی چھاپ ہی مٹا ڈالی ہے- مادھوری کے ساتھ فلمائے گئے ان کے تمام مناظر میں جوہی کا پلڑا بھاری رہا حالانکہ کیمرہ زیادہ تر مادھوری پر مرکوز رہا ہے اس کے باوجود جوہی نے مادھوری کو قدرے ماند دیا ہے- دیگر اہم کرداروں میں شامل رجّو دیدی کی وفادار ساتھی، ماہی (دیویا جگڈالے)، کجری (تنشتہ چٹرجی ) اور سندھیا (پریانکا بوس) کی اداکاری بھی اچھی رہی۔

'گلاب گینگ' کی جتنی تشہیر کی گئی تھی اس لحاظ سے فلم میں کچھ بھی خاص نہیں ہے- مادھوری ڈکشت اور جوہی چاولہ کی وجہ سے اس فلم کو تھوڑی بہت شہرت حاصل ہوئی تھی لیکن کمزور نریٹو کی بنا پر فلم بین پر کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پائی۔

فلم دیکھنے کے دوران مجھے بہت سے لوپ ہولز نظر آئے- سب سے پہلے تو موضوع اتنہائی گھسا پٹا ہے، پسماندہ لوگ، استحصال، سیاستدانوں کی بدعنوانی، ایک مسیحا وغیرہ وغیرہ۔

دوسری فلم کے کرداروں کا لب و لہجہ مختلف مناظر میں تبدیل ہوتا رہا ہے، کہیں وہ دیہاتی لہجے میں بات کر رہے ہیں تو کہیں اچانک سے شستہ انگلش بول پڑتے ہیں- کہیں بیچ میں شہری ہندی آجاتی ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

تیسرے ضرورت سے زیادہ گانے اور ایکشن مناظر- فلم میں اوسطاً ہر ایکشن سین کے بعد ایک رقص سے بھرپور گانا پیش کیا گیا ہے- فلم کا موضوع جتنا سنجیدہ تھا، بلا ضرورت گانوں نے اسے ضائع کردیا ہے- فلموں میں مادھوری کے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ہر فلم میں نچایا بھی جائے- ایکشن سین کا مطلب یہ نہیں کہ ہر فلم میں 'میٹرکس' سٹائل کے اسٹنٹس ہی دکھائے جائیں۔

چوتھی بات جو اس فلم میں انتہائی ناگوار اور قابل اعتراض رہی، وہ ایک سین میں سمترا دیوی کا ساتھی سیاستدان کے ساتھ برتاؤ تھا جس میں انہوں نے سیاستدان کو اپنی سیکرٹری کی ٹانگوں کے بیچ سے گزرنے کا حکم دیا- یہ انتہائی گھٹیا اور قابل اعتراض منظر تھا، لگتا ہے ڈائریکٹر صاحب فلم میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے چکر میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے- حیرت ہے اسے بولی وڈ سنسر بورڈ نے کس طرح او- کے کر دیا۔

پانچویں، فلم کے ایک منظر میں، گاؤں کا ایس ایچ او، سمترا دیوی سے ملنے آتا ہے تو وہاں بیٹھے مرد حضرات، ایس ایچ او کے ساتھ سمترا دیوی کے حوالے سے ایک بھدا مزاق کرتے ہیں، لیکن وہاں وہی سمترا دیوی جو اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتی خود پر کیے گئے مذاق کو خاموشی سے سن لیتی ہے، حالانکہ اپنی ریپوٹیشن کے لحاظ سے اسے ان مردوں کی ایسی تیسی کردینی چاہیے تھی- لیکن یہاں وہ کوئی ردعمل نہیں دکھاتی شاید ڈائریکٹر کو فلم ختم کرنے کی جلدی تھی۔

اب آتے ہیں فلم کے کلائمیکس کی طرف جہاں 'گلاب گینگ' کے ہیڈ کوارٹر پر سمترا دیوی کے غنڈے حملہ کردیتے ہیں- ڈائریکٹر صاحب جلدی میں یہ بھول گئے کہ سمترا دیوی ایک کہنہ مشق اور شاطر سیاستدان تھی- وہ کبھی اپنے حریف کو ختم کرنے کے لئے بذات خود اس کے گھر نہیں جاتی بلکہ چند کرائے کے قاتل بھجوا کر بھی یہ کام وہ بخوبی کروا سکتی تھی- لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا شاید ڈائریکٹر صاحب کو فلم ختم کرنے کی جلدی تھی اسی لئے وہ اتنا اہم نکتہ نظر انداز کر گئے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

فلم میں جن پہلوؤں کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں کہ ہندوستان میں خواتین، خصوصاً دیہات میں رہنے والی خواتین کی حالت افسوسناک ہے- دیہاتوں میں ترقی کا واحد ذریعہ تعلیم ہے- ملک کی بدحالی کی بڑی وجہ بدعنوان سیاستدان ہیں۔

'گلاب گینگ' سات مارچ سنہ دو ہزار چودہ کو ریلیز ہوئی- اس کا دورانیہ ایک سو انچالیس منٹ ہے- فلم کے پروڈیوسر انوبھو سنہا ہیں جبکہ ڈائریکشن/ سٹوری/ سکرین پلے/ موسیقی سومک سین کے ہیں- ڈائیلاگ سومک سین اور امیتوش ناگپال کے ہیں- سنیماٹو گرافی الفونسو رائے کی ہے۔

گو کہ ' گلاب گنگ' نے باکس آفس پر بہت اچھا بزنس نہیں کیا لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ سال دو ہزار چودہ میں خواتین کی موضوع پر بننے والی یہ تیسری فلم ہے جس میں تمام مرکزی کردار خواتین کے ہیں- لگتا ہے بولی وڈ اب اپنی اداکاراؤں کو آئٹم پیس سے کچھ زیادہ حیثیت دینے کو تیار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں