سیاہ پیغام

25 مارچ 2014
تئیس مارچ آزادی کی اقدار کا دن مگر اس بار شدت پسندوں کا پیغام کچھ اور ہی تھا۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
تئیس مارچ آزادی کی اقدار کا دن مگر اس بار شدت پسندوں کا پیغام کچھ اور ہی تھا۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

اس سے مُراد ایسا دن ہے جب پاکستانی ایک قوم کے تصور اور پاکستان کا جشن مناتے ہیں لیکن اس برس تئیس مارچ نے ایک غیر حقیقی اور پریشان کُن صورت اختیار کرلی۔ اس بار مذہبی اور سیاسی جماعتوں، حتیٰ کہ عسکریت پسند تنظیموں نے بھی، ملک بھر میں ریلیاں منعقد کیں اور پاکستان کے مطلب کو بھی نئے معنیٰ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے، تشہیر کی کہ یہ تصور تنگ نظری پر مبنی اسلام کی تشریحات اور عدم برداشت میں اپنی جڑیں رکھتا ہے۔

حق سے بہت دور، تنظیموں کی جانب سے طاقت کے اس اظہار کو، متعدد عوامل سے سمجھایا جاسکتا ہے۔

ایک تو یہ کہ حالیہ ہفتوں کے دوران ٹی ٹی پی ۔ حکومت مذاکرات قومی گفتگو کا غالب موضوع رہے، جس کی وجہ سے عسکریت پسندی کے دیگر کھلاڑیوں اور دائیں بازو پرمشتمل عناصر نے شاید یہ محسوس کیا کہ انہیں ملک کو اپنے وجود اور مطابقت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، اس طرح یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ عسکریت پسندی کے کلب کی تشکیل اور دائیں بازو کا ایجنڈا، صرف ٹی ٹی پی تنہا طے نہیں کرسکتی۔

دوسرا یہ کہ حکومت نے تئیس مارچ کو منعقدہ روایتی اور علامتی پریڈ کا سلسلہ ختم کر کے ترقی پسندی کا ہتھیار پھینک ڈالا اور دائیں بازو والوں کے لیے خود ہی گنجائش پیدا کردی کہ وہ اپنے قصے کا پرچار کرسکیں۔

یہ سچ ہے کہ اس بار قصرِ صدارت نے تیئس مارچ کی پہچان بننے والی تقاریب کو چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن اس سلسلےکو زندہ کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے لیکن سیکیورٹی کے بھاری خدشات سروں پر منڈلارہے ہیں، ایسے میں شہری یا سیاسی قیادت، کوئی بھی بڑے پیمانے پر عوامی تقاریب کے انعقاد کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں۔

سوئم، ریاست کی طرف سے عسکریت پسندی کے بعض حصوں کو تسلیم کرنے کا عمل بدستور جاری ہے۔ اتوار کو عوامی اجتماعات کا انعقاد کرنے والی بہت سی تنظیموں میں سے، بعض کے متعلق اب بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ فوج کی زیرِ قیادت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بدستور قریب تر ہیں۔

اور پاکستان مسلم لیگ ۔ نون اپنی پرانی عادت کے مطابق، لگتا یہی ہے ایک بار پھر ان تنظیموں کو غیرمعمولی مراعات پیش کررہی ہے جو پنجاب میں اپنا واضح اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور، یہاں تک کہ قومی سطح پر اسے فاؤسٹ (گوئٹے اور مارلو کے ڈراموں کے ہیرو) کی طرح سودے بازی میں بہترین طور پر گمراہ کُن بولی دینے کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

مسئلہ یہ ہےکہ نہ تو حکومتِ وقت اور نہ ہی مستقل ریاست/ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، وقتی رعایتوں کے طویل المدت اثرات کو سمجھنے پر تیار نظر آتی ہیں۔

انتہا پسند گروہ، جن کا زہد و تقویٰ ہی نفرت و عدم برداشت ہے، ان کا تئیس مارچ کا دن منانا، اس بات کی اجازت دینا ہے کہ وہ پاکستان کی شناخت کےلیے بھرپور طریقے سے اپنے تصورات کا پرچار کریں۔ یہ سب ملک کو مزید دائیں اور اس مستقبل کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے کہ جہاں نفرت اور خوف غلبہ رکھتے ہیں۔

تئیس مارچ کا موقف کیا ہونا چاہیے؟ آزادی، خود اختیاری، جمہوریت اور حقوق سب کے لیے، دباؤ اور تشدد سے آزادی، بیس کروڑ باشندوں کی معاشی اور سماجی ترقی، قانون اور ریاست کی نگاہوں میں سب برابر۔ یہ وہ اقدار ہیں، جنہیں تئیس مارچ کے دن یہ ملک مناتا ہے۔

اس کے بجائے اتوار کو سیاہ پیغام دیا گیا، جسے نہ سننے کے لیے بہت ساروں نے اپنے کان بند کر لیے تھے۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں