!عورت کی توہین -- پاکستان کی نیشنل ہابی

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2014
پاکستانی عورت ہمیشہ ہی کسی نا کسی سیاسی طاقت، مذہبی فتوے یا سماجی مسئلے کا براہ راست نشانہ بنتی رہی ہے۔
پاکستانی عورت ہمیشہ ہی کسی نا کسی سیاسی طاقت، مذہبی فتوے یا سماجی مسئلے کا براہ راست نشانہ بنتی رہی ہے۔

پاکستانی عورت اپنے لئے کسی خاص مراعات کی توقع نہیں رکھتی- ماضی میں ہمیشہ وہ کسی سیاسی طاقت، مذہبی فتوے یا سماجی مسئلہ کا براہراست نشانہ بنتی رہی ہے، اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، بہتان لگاۓ جاتے ہیں- ایسی صورت میں، ان میں سے اکثر خواتین کا عالمی دن پر کم ہی اچھی توقعات رکھتی ہیں-

اس دن کچھ ستائشی آرٹیکل لکھے گۓ، ادھر ادھر تھوڑے جلسے جلوس کیے گۓ، سیاستدانوں اور اہم شخصیات کو بھی تھوڑی داد و تحسین وصولنے اور بیواؤں میں چیکس تقسیم کرنے کا موقع ملا، اسکول کی بچیوں کو گیت گاتے سنا گیا- ماضی میں عورت کے ساتھ نفرت کا مطلب ہے، حقیقت میں کم توقعات ہیں- ظاہر ہے اس صورت میں کسی کو بہتری کی امید کم ہی ہے-

تاہم، تباہی کے لئے فقط امید کی کمی ہی کافی نہیں- اگر عورتوں کا عالمی دن، عملی پاکستانی خواتین کے لیے برا ثابت ہوا اور انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ کم از کم ایک ہفتے تک اس سے زیادہ برا کچھ نہیں ہونے والا، تو ظاہر ہے وہ غلط تھیں-

خواتین کے عالمی دن کے بعد آنے والے ہفتے نے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی پاکستان میں عورتوں سے نفرت کرنے والوں کے ترکش میں بہت سے تیر باقی ہیں- وہ ملک جسے زمین پر سب سے زیادہ عورت مخالف مانا جاتا ہے-

درج ذیل میں ان اقدامات کی فہرست ہے جو پاکستان نے اس سمت کی طرف اٹھاۓ ہیں:

1. بچوں کی شادی کی سفارشات :

ملک میں خواتین کا عالمی دن مناۓ جانے کے ٹھیک دو دن بعد ،گیارہ مارچ سال دو ہزار چودہ کو، پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے چند فیصلہ کن وار کرنے کا ارادہ کیا (شاید اس ڈر سے کہ اس دن کی بدولت خواتین خود مختار ہو رہی ہیں)-

سی آئی آئی کے چیئرمین، مولانا محمّد شیرانی، نے یہ اعلان کیا کہ بلوغت کی عمر سے کم بچوں کی شادی کی جاسکتی ہے اور یہ کہ بچوں کی شادی پر لگایا گیا بین الاقوامی کنونشن غیر اسلامی ہے اور پاکستان میں قابل عمل نہیں ہے-

اس ایک بیان میں، پاکستانی لڑکیوں بلکہ شیرخوار بچیوں تک کو بد فعلی کا شکار بنا دیا گیا، انکی زندگیوں اور مستقبل کا فیصلہ اب ان کے کچھ کہنے سننے سے بہت پہلے ہی کر دیا جاۓ گا-

عورت سے نفرت کی حد یہیں ختم نہیں ہوتی، اسی دن مولانا صاحب نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ ایسا کوئی بھی قانون جو ایک پاکستانی مرد کو دوسری شادی کے لئے اپنی پہلی بیوی کی اجازت کا پابند بناتا ہے غیر اسلامی ہے-

2. ایک ریپ کی شکار کو نظر انداز کیا گیا جبتک اسنے خود سوزی نہ کرلی:

وہ اٹھارہ سال کی تھی، وہ ایک ایسے ملک کی باسی تھی جہاں ریپ کی متاثرہ عورتوں پر بھی مقدمہ چلایا جاتا ہے- دو ماہ پہلے، پانچ جنوری سال دو ہزار چودہ میں، اس نے پولیس سٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کروائی تھی جس کے مطابق نادر خان نے چار ساتھیوں کے ہمراہ بیت میر ہزار چوک کے قریب اسے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا-

تیرہ مارچ سال دو ہزار چودہ کو وہ پانچوں ملزمان رہا کر دیے گۓ- چودہ مارچ سال دو ہزار چودہ کو اس لڑکی نے اسی پولیس سٹیشن کے سامنے خود کو آگ لگا لی جس نے اسے انصاف سے محروم کردیا- اسی دن وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی-

3. ایک عورت کو زندہ دفن کر دیا گیا :

ضلع سانگھڑ میں حاکم خان مری گاؤں کی صغرا بروہی کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنی پسند کے مرد سے شادی کی تھی- گاؤں کی پنچایت آپس میں ملی اور 'بڑوں' نے اس بات کا یقین دلایا کہ اگر صغرا لوٹ آئی تو اسے قتل نہیں کیا جاۓ گا- انہوں نے جھوٹ کہا تھا، جیسے ہی صغرا گھر لوٹی اسکے اپنےگھر والوں نے اس پر حملہ کردیا-

سندھی روزنامہ 'کاوش' کے مطابق اسے علاقے میں موجود بھیل برادری قبرستان میں زندہ دفن کردیا گیا- قبر دریافت کرلی گئی اور گزشتہ ہفتے رپورٹ خبروں میں بھی آئی- کہا جا رہا ہے کہ علاقہ پولیس اس کیس کی تحقیقات کر رہی ہے-

4. ہڑتالی نرسوں پر تشدد :

پانچ دن تک پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ کے باہر سو سے زائد نرسوں نے دھرنا دے رکھا تھا- یہ نرسیں ایڈ ہاک یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والی اپنی کولیگس کی برطرفی پر احتجاج کر رہی تھیں- چودہ مارچ سال دو ہزار چودہ کو ان پرامن نرسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا-

اس واقعہ کی نیوز فوٹیج میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نرسوں پر تشدد کرتے ہوۓ دکھایا گیا- ان میں سے کئی زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئیں جبکہ دو کی حالت اتنی تشویشناک ہوگئی کہ انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کرنا پڑا-

پولیس کی جانب سے غیرضروری اور غیر منصفانہ تشدد کے باوجود، بچ جانے والی نرسوں نے اسمبلی کے باہر احتجاج جاری رکھا-

5. وہ کھانا پکانے کے لائق ہیں 'کرکٹ ' کے نہیں:

صرف ایک ہفتے اگر میں زندہ دفن ہوجانا، عصمت دری ہونا، جل کر خاک ہوجانا، اور لاٹھی چارج ہونا پاکستانی خواتین کے استحصال کے لئے کافی نہ تھا تو پاکستانی کرکٹ کے ہیرو کہلاۓ جانے والے ایک مرد نے اپنے تنگ نظر خیالات سے اس میں مزید اضافہ کر دیا-

ایک انٹرویو کے دوران شاہد آفریدی سے سوال کیا گیا کہ کراچی میں منعقد ہونے والے انڈر نائنٹین وومن کرکٹ ٹرائل کے بارے میں انکا کیا خیال ہے-

کرکٹر نے یہ کہ کر خود کو مردانگی پرست ثابت کر دیا کہ ان کے خیال میں ہماری خواتین کا اصل مقام 'باورچی خانہ ' ہے جہاں انہیں اپنے مردوں کے لئے کھانا پکانا چاہیے-

لگاتار ظلم در ظلم کی اس فہرست کے ساتھ ایک ہفتہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا، یہ سب کچھ غیر معمولی یا منفرد نہیں ہے، ہاں یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ یہ پوری قوم ملک کی آدھی آبادی کا احترام کرنے میں ناکام رہی ہے-

ایک ہفتے پر محیط موت، تشدد اور بے حرمتی کا یہ مجموعہ اس بات کا عکاس ہے کہ اس ملک میں ہر روز عورتوں پر ہونے والے مظالم سے ہر مرد خود کو بری الزمہ اور لاتعلق سمجھتا ہے-

قانون، مذہب، کمیونٹی، حکومت اور انٹرٹینمنٹ کے تمام ذرائع، اس استحصال اور ہراس کا حصّہ ہیں- یہ ایک ایسا کچرے کا ڈھیر ہے جس سے اٹھنے والی سڑاند سے پتا چلتا ہے کہ یہ اندر سے کس حد تک سڑ چکا ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں