اسلام آباد: پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو گزشتہ روز بتایا گیا کہ دو موجودہ ملٹری افسران کی بلوچوں کی جبری کمشدگی میں مبینہ مداخلت پر وفاقی حکومت 1952ء کے پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت ان پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔

فرنٹیئر کور کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ عرفان قادر نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ ان کی چیف سیکریٹری بلوچستان کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی، انہوں مجھے بتایا تھا کہ دو موجودہ فوجی افسران پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے درخواست کی تھی۔

اس موقع پر عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان، ایڈوکیٹ عرفان قادر اور جرائم کی تفتیش کرنے والے محکمے سی آئی ڈی کو ایک اجلاس منعقد کرنے اور ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے طریقے کا تعین کرنے کا حکم دیا۔

ان افسران کا عدالت میں پیش کیا جائے یا جبری گمشدگیوں سے متعلق ان کی تفصیلات سی آئی ڈی کوئٹہ کے انویسٹیگیش آفیسر کو فراہم جائیں۔

لیکن بلوچستان حکومت نے 30 جنوری کو سپریم کورٹ میں یہ تسلیم کیا تھا وہ بے بس کیونکہ اس کا ایف سی پر کوئی مؤثر کنٹرول نہیں ہے جس پر ان افراد کو اٹھانے کا الزام عائد ہے۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ 33 لاپتہ افراد میں سے انیس کو اٹھانے کا الزام ایف سی پر عائد کیا گیا، جبکہ ان میں آٹھ کو خفیہ ایجنسیوں اور ملٹری انٹیلیجنس نے اور باقی چھ کو پولیس یا پھر لیویز اہلکاروں نے اٹھایا۔

رواں مہینے میں سات مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے بلوچستان حکومت کو واضح مؤقف پیش کرنے کی ہدایت کی تھی کہ آیا ان دو فوجی آفسران پر فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے یا ان کے مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت فوجی انتظامیہ کو منتقل کردیے جائیں۔

یہ ہدایت اس وقت جاری کی گئی تھی جب سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے دعوی کیا تھا کہ فوجی حکام نے اس کیس کو حاصل کرنے اور پی اے اے کے ساتھ فوجی ریگولیشن کے قوانین 373 کو ساتھ ملا کر ان افسران پر مقدمہ چلانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

میجر معین (اسامہ) اور میجر سیف نامی ان افسران پر گواہوں کی جانب سے بلوچ افراد کو اٹھانے کے الزامات اور شکایات ہیں۔ انہوں نے ایف سی میں ڈیپوٹیشن پر کام کیا، لیکن بعد میں انہیں ان کے محکمے ملٹری انٹیلیجنس میں واپس بھیج دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ریٹائرڈ افسران خالد منیر خان، جنرل مظفر افضل اور جنرل خلد ظہیر جنہیں مختلف مواقع پر فوج میں بحال کیا گیا اور یہ نیشنل لاجسٹک سیل میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے، بعد ان کا کورٹ مارشل اس وقت ہوا جب کرپشن کے الزامات پر ان کے مقدمات کو قومی احتساب بیورو میں منتقل کیا گیا تھا۔

ایک سینیئر وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ " کوئی بھی اس بارے میں نہیں بتا سکتا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی میں کیا ہوا تھا کہ آیا انہیں سزا سنائی گی یا ضمانت پر بری کردیا گیا۔"

گزشتہ روز منگل کو ایڈوکیٹ عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت فوجی افسران پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کررہی ہے۔

بلوچستان سے دریافت ہونے والے اجتماعی قبروں کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل آف بلوچستان نظام الدین کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد نور مسکن زئی پر مشتمل ایک رکنی ٹریبیونل نے اس معاملے کی تفتیش اب تک مکمل نہیں کی ہے اور انہوں نے مزید چھ مہینے کی مہلت مانگی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں