وزیر برائے مذہبی امور کی مولانا شیرانی کے مؤقف کی تائید

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2014
مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے  بچوں کی شادی پر پابندی کے لیے ماروی میمن کے بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کے موقف کی حمایت کی۔ —. فوٹو آئی این پی
مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے بچوں کی شادی پر پابندی کے لیے ماروی میمن کے بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کے موقف کی حمایت کی۔ —. فوٹو آئی این پی

اسلام آباد: کل بروز منگل کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ان مولویوں کو خوش کرتے دکھائی دیے، جو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ایک نجی بل کو روکنے میں ناکام ہوگئے تھے، جس میں کہا گیا ہے کہ کم سن بچوں کی شادی پر پابندی کی خلاف ورزی کو زیادہ سے زیادہ سزا کے ساتھ قابلِ دست اندازیٔ جرم بنادیا جائے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے پانچ اراکین کی جانب سے لائے گئے اس بل کو واپس لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور حکومتی اتحادی جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف) کے ایک رکن نے ایک دوسری پارٹی کے ساتھ کے ہمراہ خاصی دھواں دار تقریر کی، اور اس کو اسلام اور آئین کے خلاف قرار دیا۔

دراصل حال ہی میں معتدل مزاج حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاجی موقف کو دبانے کی یہ ایک کوشش تھی۔

مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے مولانا شیرانی کے نظریات پر اپنے جھکاؤ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کہا ہے کہ اس بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کی رائے لینے کے لیے بھیج دینا چاہیٔے یا اگر ضرورت محسوس کی جائے تو یہ مسوّدہ کونسل کو بھیج دیا جائے۔

جبکہ بغور دیکھا جائے تو اس عمل سے اس بل کی منظوری کا معاملہ انتہائی مشکوک ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کی شادی کے مخالفین کے درمیان منگل کے روز کچھ تعاون دکھائی دیا، اس کے باوجود کہ حال ہی میں مولانا شیرانی کے نظریات کی مخالفت پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف ماروی میمن نے کی تھی، جو کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے ترمیمی بل کی مصنف ہیں، وہ اپنے اس نصب العین کی وکالت کے لیے ڈٹی رہیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر میں نابالغ لڑکیوں کی شادی سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور سماجی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکمران جماعت کے اراکین کے ساتھ ایک مشترکہ مؤقف اپنانے سے گریز کیا، دوسری جانب ماروی میمن کی اپنی جماعت کے ساتھیوں نے مولانا شیرانی کے اس دعوے کو چیلنج کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ بل آئین کی کئی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور قرآن و سنت کے برعکس ہے۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ ’’مذہبی معاملات سے منسلک اس طرح کے قوانین کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کیے بغیر براہ راست نہیں پیش کرنا چاہیٔے۔‘‘ ان کے بعد ان کی جماعت کے ساتھی مولانا امیر زمان نے شدت سے ان کے مؤقف کی تائید کی۔

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف نے کہا کہ ’’مولانا نے جو کچھ کہا (اسلامی نظریاتی کونسل کے مؤقف کے بارے میں) اس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ کمیٹی ان کی سفارشات پر غور کرے گی۔‘‘

یہ بل برطانوی دور کے کم عمری کی شادی کو روکنے کے ایکٹ 1929ء میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ 1964ء کے تحت فیملی کورٹس کو بااختیار بنایا جائے، تاکہ وہ اس جرم کی سماعت کرسکیں اور دو سال کی قیدِ بامشقت دے سکیں۔یا ایک لاکھ جرمانہ کے ساتھ، یا پھر دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جائیں۔ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو بھی ایک سال قید کی سزا دی جائے، یا ایک لاکھ جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ایک ساتھ۔

پیر کے روز سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن کے دوران پہلے پرائیویٹ اراکین کے دن میں چار دیگر نجی بل بھی پیش کیے گئے اور قائمہ کمیٹی کے پاس غور کے لیے بھیج دیے گئے، جس میں ایک جے یو آئی ایف کی آسیہ ناصر کی جانب سے اور ایک غیر مسلم اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پانچ اراکین اسمبلی کی جانب سے پیش کیا گیا، اقلیتی برادری کے اراکین کے بل میں آئین میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کو دس سے بڑھا کرسولہ کیے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔ جس کے بعد قومی اسمبلی کی کل نشستیں 342 سے بڑھ کر 348 ہوجائیں گی۔

ماروی میمن کی جانب سے پیش کیے گئے ایک اور بل میں بچوں کے خلاف جسمانی سزا پابندی کی کوشش کی گئی تھی۔ مسلم لیگ نون کی طاہرہ اورنگزیب کے بل میں معذور فراد کو سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمت کی سہولت دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور ایک دوسرا بل جو جے یو آئی ایف کے مولانا امیر زمان کی طرف سے پیش کیا گیا، اس میں آئین میں ترمیم کے ذریعے بلوچستان کے شہر لورلائی میں ہائی کورٹ کی بینچ کی تشکیل کی استدعا کی گئی ہے۔

اس کے بعد ایوان کا اجلاس بدھ کے روز ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی ہوگیا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے اسد عمر کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

اس سے قبل دولت مند طبقے کی جانب سے ٹیکس چوری اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ غریبوں اور متوسط طبقے پر منتقل کرنے پر گرماگرم بحث ہوئی۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا محمد افضال نے ایوان کو مطلع کیا کہ حکومت ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے پر پہلے ہی کام کررہی ہے، اور انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اپنی آمدنی ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے، ان کی تعداد لگ بھگ 77 ہزار ہے، ان لوگوں کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، انہیں اپنے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں