تھر میں بائیس ہزار سے زائد خاندان اب بھی خوارک سے محروم

26 مارچ 2014
سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ ریکارڈ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ضلع تھرپارکر میں متعدد ہلاکتیں غذائی قلت کے باعث ہوئی ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ ریکارڈ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ضلع تھرپارکر میں متعدد ہلاکتیں غذائی قلت کے باعث ہوئی ہیں۔

کراچی: صوبائی حکومت کی جانب سے خشک سالی سے متاثرہ ضلع تھرپارکر کے علاقوں میں عوام تک غذائی اشیاء کی فراہمی اور بحالی کے کاموں میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ آرمی ایوی ایشن اور دیگر اداروں سے بذریعہ ہوائی جہاز تقریبا بائیس ہزار سات سو باون خاندانوں کو غذائی اشیاء اور دیگر سامان پہنچانے کے لیے درخواست کریں۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں ایک دو رکنی بینچ نے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں سے متعلق ایک ہی جسی تین درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران بینچ نے متاثرہ علاقوں میں متعلقہ حکام کی نگرانی کے لیے ضلع تھرپارکر کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی حکم دیا۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اور ٹرانسپلاینٹیشن کے ایک سینیئر ڈاکٹر اور سندھ کی دیہی سپورٹ آرگنائزیشن کی ڈاکٹر سونو خانگرانی کو اس کمیٹی کا رکن بنانے کا بھی حکم دیا گیا۔

بینچ نے بورڈ آف ریونیو اور ریلیف کمشنر کے سینیئر اراکین کی اس رپورٹ پر افسوص کا اظہار کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ 22 ہزار سات سو باون خاندان اب بھی خوراک اور امداد سے محروم ہیں۔

چیف جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ "ریکارڈ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ضلع تھرپارکر میں متعدد ہلاکتیں غذائی قلت کے باعث ہوئی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صوبے کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

عدالتی بینچ نے کمیٹی کو متاثرہ علاقوں میں صحت کی سہولیات اور کارکردگی سے متعلق رپورٹ آٹھ اپریل کو اگلی سماعت میں جمع کروانے کی بھی ہدایت کی۔

عدالت نے صوبائی حکومت کو بھی ہدایت کی کہ وہ دور دراز علاقوں میں ریکارڈ کی روشنی میں لوگوں تک خوراک کی پوری طرح سے فراہمی کا طریقہ کار تیار کرے۔

اس موقع پر عدالت نے ریلیف کمشنر فضل الرحمان، غلام مصطفیٰ اور مخدوم عقیل الزمان، میر پورخاص کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو بھی ایک ہی وقت میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔

عدالت نے حکام کو خبردار کیا کہ وہ اگلی سماعت میں پیش ہونے سے گریز نہ کریں۔

بورڈ آف ریونیو اور ریلیف کمشنر کے ایک سینیئر رکن عالم دین بلو نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے گندم کے سو کلو کے ایک لاکھ اکتیس ہزار سات سو اکیس تھیلے فراہم کرنے کا عزم کیا تھا اور ایک لاکھ دس ہزار تین سو اکہتر بیگ متاثرہ علاقوں میں فراہم کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امکان ہے کہ باقی تھیلے بدھ تک پہنچ جائیں گے، اور یہ اگلے چار روز میں متاثرین میں تقسیم کیے جائیں گے۔

بیمار لوگو کو ریلیف کی فراہم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقریباً مختلف میڈیسنز کے باسٹھ لاکھ اسّی ہزار اڑتیس اسٹاک ضلع تلوکہ کے ضلعی ہسپتال کو فراہم کردیے گئے ہیں۔

ریلیف کمشنر کا کہنا تھا کہ دسمبر 2013ء کے بعد سے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ 118 مریضوں کا انتقال ہوا جن میں 109 بچے شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی ایچ آئی کی جانب سے تقریباً 34 میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور 15 میڈیکل ٹیمیوں نے این جی اوز کے ساتھ مدد سے کام شروع کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مٹھی کے سول ہسپتال کی عمارت کے ساتھ 40 بیڈ کا ایک ہستپال مردوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

کمشنر کا کہنا تھا کہ 52 طبی عملے میں 14 خواتین میڈیکل آفیسرز اور 16 اسپشلسٹ کو متاثرہ علاقوں میں 14 مارچ کو تعینات کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تعیناتیوں یہ عمل 26 مارچ تک جاری رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ 81 طبی عملے میں خواتین کی اسپیشلسٹ بھی شامل ہیں۔

کمشنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکنہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل پر طویل مدتی اور مختصر وقت کے امدادی منصوبوں پر کام کررہی ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور درخواست سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، شہری حقوق کے سرگرم کارکن رانا فیض الحسن اور پاکستان متحدہ انسانی حقوق کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں