نیوکلیئر ریکارڈ

26 مارچ 2014
سپلائرز گروپ میں شمولیت کا پھر مطالبہ، منزل دور سہی مگر مطالبہ پاکستان کا حق ہے۔ اے پی فوٹو۔۔۔۔۔
سپلائرز گروپ میں شمولیت کا پھر مطالبہ، منزل دور سہی مگر مطالبہ پاکستان کا حق ہے۔ اے پی فوٹو۔۔۔۔۔

دنیا میں نیوکلیئر سلامتی سے متعلق، ہیگ میں منعقدہ تیسری سربراہی کانفرنس میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے طویل عرصے سے موجود ملکی موقف کو دہرایا ہے۔

نیوکلیئر ایکسپورٹ کلب کے اڑتالیس رکن ممالک عدم پھیلاؤ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ مذکورہ کلب کی رکنیت کے متعدد فوائد ہیں لیکن شاید سب سے بڑی کشش یہ ہے کہ اس طرح پاکستان عالمی نیوکلیئر کمیونٹی میں قانونی طور پر ایک ذمہ دار نیوکلیئر ملک تسلیم کرلیا جائے گا۔

نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت سے پاکستان ممکنہ طور پر، بیک وقت خریدار اور فروخت کنندہ، کی حیثیت حاصل کرجائے گا۔ ایک خریدار، جیسا کہ سن دو ہزار چھ میں ہندوستان اور امریکا کے درمیان ہونے والا خریداری کا معاہدہ ہے اور فروخت کنندہ اس طرح کہ پاکستان نیوکلیئر فیول کی تیاری کا ایڈوانسس سسٹم تیار کرچکا۔

لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذات کے گرد گھومنے والی نیوکلیئر پھیلاؤ کی کہانی کے بعد اب یہ سب کچھ دور کا سپنا لگتا ہے، پاکستان تو دنیا کو اپنی طرف لانا چاہے گا لیکن بیرونی دنیا ایسا کرنے میں کم ہی دلچسپی رکھتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لیے درکار شرائط پر پورا اترتا ہے لیکن شمولیت کا فیصلہ سیاسی پس منظر میں بھی کیا جاتا ہے۔ اگرچہ رسمی اعلان باقی ہے لیکن سن دو ہزار دس میں ہندوستان کی شمولیت میں امریکی پشت پناہی کارفرما تھی۔

تجارتی و سرمایہ کاری کے مواقع اور سفارتی تعلقات میں بڑھتی قربت بھی تسلیم شدہ نیوکلیئر پاور اسٹیٹس کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ پاکستان، تشدد کا زخم خوردہ ہے اور عالمی دہشت گردی و نیوکلیئر پھیلاؤ سے متعلق تحفظات پر اکثر غلط سمت میں کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کے فوائد اس کے لیے نہیں۔

اگرچہ پاکستان نے عدم پھیلاؤ اور اپنے نیوکلیئر پروگرام اوراثاثوں کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن وہاں معاملہ بظاہر کچھ دوسرا بھی ہے۔

مقصد کا حصول بہت دور سہی لیکن اس کے باوجود ہر دستیاب موقع پر اپنی اہلیت اور قابلیت کا اظہار کرتے ہوئے، نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کا مطالبہ دہرانے میں، ملکی قیادت اپنی جگہ بالکل درست ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے۔

اس ضمن میں، رکنیت کا معاملہ جب زیرِ غور آئے گا، تب پاکستان کے پاس نیوکلیئر کلب کے اصولوں اور سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی تجارت کے لیے طے کردہ عالمی قواعد کی پاسداری کا طویل اور قابلِ تصدیق ریکارڈ موجود ہوگا۔

اسی دوران، یہاں سول نیوکلیئر منصوبے بھی جاری ہیں، جس کےلیے داخلی اور شاید علاقائی اور عالمی تحفظات کو بھی دور کرنے میں مدد دینے کی خاطر، حکومتِ پاکستان کو عالمی ماہرین کی مہارت کو بھی شامل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت توانائی کی قلت دور کرنے کے لیے، ملک میں نیوکلیئر توانائی کے بڑے پیمانے پر استعمال کے واسطے خود کو تیار کرچکی، لیکن بعض حلقوں کی جانب سے نئے منصوبوں کے مقام اور ڈیزائن سے متعلق سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے تو جاپان بھی فوکوشیما جیسی تباہی کا شکار ہوسکتا ہے، یقیناً پاکستان کو بھی منصوبے کے طول وعرض کے تناظر میں، متاثرہ زون کی آبادی کے امکانی خدشات کو یقینی طور پر دور کرنا چاہیے، نیز عالمی برادری بھی، حفاظتی اور ماحولیاتی تحفظات کے سامنے، اسے اپنی عزت و وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں