توہین پر موت

31 مارچ 2014
ساون مسیح کو توہین رسالت پر پھانسی، اس کی جوزف کالونی جلانے والوں کو سزا کب ہوگی۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
ساون مسیح کو توہین رسالت پر پھانسی، اس کی جوزف کالونی جلانے والوں کو سزا کب ہوگی۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

کینہ پرور شکاری معاشرے میں، خطرات کی زد پر کھڑی اقلیتیں، ایک بار پھر خود کو پاکستان میں غیرمحفوظ محسوس کررہی ہیں۔ جمعرات کو، لاہور کے خاکروب ساون مسیح کو توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنادی گئی۔

گذشتہ برس مارچ کے دوران، ساون مسیح اور اس کے ایک مسلمان دوست کے درمیان تلخ کلامی سے یہ معاملہ شروع ہوا اور پھر اسے ہوا دی جوزف کالونی پر دھاوا بولنے والے اُس مشتعل ہجوم نے، جس نے عیسائی آبادی کے سو سے زائد گھروں کو آگ لگادی تھی۔ اسی کالونی میں ساون مسیح بھی رہائش پذیر تھا۔

خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، وجہ یہ تھی کہ اہل علاقہ اس طرح کے حملے کے خوف سے، پہلے ہی اپنے گھروں کو چھوڑ کر روپوش ہوچکے تھے۔

ساون مسیح کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ سزا کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کریں گے۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ توہین رسالت کے جُرم میں، ماتحت عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزائے موت کے کسی بھی فیصلے کو ہائی کورٹس نے بحال نہیں رکھا ماسوائے ایک کے، بعد ازاں، سن اُنیّس سو اٹھانوے میں سزائے موت کے فیصلے کو بحال رکھنے کا یہ حکم بھی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں، کسی قانونی نکتے کی بنا پر شاید اس سزا کو بھی کالعدم قرار دے دیا جائے۔

جو بات ٹھوس یقین سے کہہ سکتے ہیں، وہ یہ کہ جب سے ساون مسیح کو توہین رسالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا، تبھی سے وہ نشان زدہ شخص بن چکا ہے۔

آج کے پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو، خواہ کسی بھی انداز میں، ایک بار اس سنگین الزام کا مرتکب ٹھہرا دیا جائے اور پھر چاہے یہ الزام ثابت بھی نہ ہو لیکن تب بھی، دوران قید بلکہ الزام سے برّیت کے باوجود بھی، اس کی زندگی بدستور خطرات میں گھری رہتی ہے۔

خاص طور پر، توہین رسالت کے اس قانون سے اقلیتیں سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔ اوّل تو یہ کہ آبادی میں ان کی حقیقی نمائندگی کے مقابلے میں، انہیں غیرمتناسب طور پر ہدف بنایا گیا۔

دوئم، اگر ان میں سے کسی ایک کو ملوث کیا جاتا ہے تو پھر پوری آبادی اس سے متاثر ہوتی ہے، جیسا کہ جوزف کالونی اور گوجرہ وغیرہ میں مشتعل ہجوم کی پُرتشدد کارروائیوں سے واضح ہوتا ہے، یا کم اہمیت کے حامل واقعات، جن میں پوری برادری کو ہی علاقے سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے الزامات عائد کرنے کے اکثر واقعات کے پس پردہ، ذاتی دشمنیوں کا حساب چُکتا کرنا یا پھر زمین پر قبضے کی خواہش کے محرکات پیش پیش ہوتے ہیں۔

یہ ہیں وہ تمام تر وجوہات، جس کے باعث اس قانون پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں، اس سے پاکستان کی مسیحی آبادی کو کیا پیغام جائے گا کہ ساون مسیح کو تو موت کی قطار میں کھڑا کردیا گیا لیکن اس کی بستی، جوزف کالونی پر بھیانک حملے میں جو ملوث تھے، ان کے خلاف سماعت چیونٹی کی چال چل رہی ہے؟

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں