لفظوں کے تیر

01 اپريل 2014
جمعہ کی رات لاہور میں رضا رومی پر ہونے والے حملے کی وجہ بھی الفاظ ہی تھے جو انہوں نے بولے اور لکھے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔
جمعہ کی رات لاہور میں رضا رومی پر ہونے والے حملے کی وجہ بھی الفاظ ہی تھے جو انہوں نے بولے اور لکھے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے- جمعہ کی رات لاہور میں رضا رومی پر ہونے والے حملے کی وجہ بھی الفاظ ہی تھے جو انہوں نے بولے اور لکھے، اس حملے میں انکا ڈرائیور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا- اور اس انتہائی مایوسی کی فضا میں مزید الفاظ کا اضافہ ہوا، مذمت کے الفاظ، غم و غصّے کے الفاظ-

اس میں سے زیادہ تر تو معمول کی نوعیت کے تھے جس میں کچھ برائی نہیں ہے- حکومت کو کچھ کرنے، کچھ بھی کرنے کے لئے (غیر مؤثر) مطالبے کیے گۓ، ظاہر ہے وہ نہیں کریں گے- ہمیشہ کی طرح مشتبہ افراد پر بھی غم و غصّے کا بےاثر سیلاب بہایا گیا، وہی نامعلوم آزادی پسند اسٹیک ہولڈرز جن سے کوئی جھگڑا مول نہیں لینا چاہتا- اس کے علاوہ میڈیا سے بھی متحد ہونے اور بائیکاٹ کے اعلان کا (مخلصانہ مگرغیر حقیقی) مطالبہ کیا گیا، ٹھیک اسی طرح جیسے سیرینا ہوٹل حملے کے بعد افغان صحافیوں نے کیا تھا-

چلیں آخر الذکر سے آغاز کرتے ہیں- مانتا ہوں، یہ یکجہتی کا بہترین مظاہرہ ہوگا، لیکن یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا- آخر کو یہ وہی انڈسٹری ہے جو ممکن ہے حریف گروپ پر ہونے والے نیوکلیئر حملے کی رپورٹ اس گروپ کا نام ظاہر کیے بغیر کرے- یہ بظاھر ایک خفیہ پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے مطابق کسی ایسے نام کا ذکر کرنے سے جس سے سب واقف ہوں لوگوں کی توجہ انکی طرف مبذول ہوگی اور ممکن ہے اس گروپ کی ریٹنگ بھی بڑھ جاۓ-

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا بائیکاٹ سے امید لگانے کی ضرورت نہیں، یہ محض دل کو بہلانے کا ایک بہانہ ہے-

اور جب بات آتی ہے دل بہلانے کی تو آج کل ہر کس و ناکس کا پسندیدہ مشغلہ بہتان تراشی، پھٹکارنا اور گالی گلوچ بن گیا ہے جس پر قتل کی دھمکیوں کا بگھار بھی ڈالا جاتا ہے- مثال کے طور پر آج کل کے مشہور لفظ 'ڈالر خور' کو لے لیجیے، یہ لفظ آج کل ہر اس شخص کے لئے بطور الزام استعمال کیا جاتا ہے جو جلیل القدر شخصیات پر تنقید کی جسارت کرتا ہے-

جی ہاں، میں جانتا ہوں یہ فقط دو الفاظ ہیں جو محض ایک نکتہ پیش کرنے کے لئے دو مختلف زبانوں سے مل کر بناۓ گۓ ہیں، لیکن ایک لمحے کے لئے ہم اس کے منطقی نتیجے پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.. ٹھیک ہے؟ اگر آپ کسی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ کسی غیر ملکی طاقت کا تنخواہ دار ہے، جس سے شاید پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے، اس کا مطلب آپ اس شخص پر غداری کا الزام لگا رہے ہیں- اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے غداری کی سزا موت ہے- تو کیا اونچی سطح کی قیادت کی طرف سے لگاۓ گۓ یہ الزامات قتل پر اکساتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ ٹرولز اپنے دانت دکھانا شروع کریں میں یہ واضح کردوں کہ حملہ آور کسی بھی ایسے بیان سے متاثر نہیں تھے-

انہوں نے کسی صبح اٹھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ، "جی ! خان صاحب کا کہنا ہے کہ جو انکے خلاف لکھتے ہیں وہ سب امریکی ایجنٹ ہیں، کیوں نہ ان سب کو قتل کردیا جاۓ؟" یقین کیجیے ایسا نہیں ہے-

لیکن وہ جو کسی پر بھی نہایت آسانی کے ساتھ کوئی بھی الزام لگا دیتے ہیں انہیں کم ز کم ان الزامات کے مضمرات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے، حالانکہ مجھے شک ہے کہ ایسے لوگوں میں غور کرنا تو کجا سوچنے تک کی بھی صلاحیت موجود ہوگی- تاہم، یہ لوگ کوشش کر سکتے ہیں، اور انہیں خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے-

اور پھر ظاہر ہے اسکی جوابی دلیل بھی دی جاۓ گی کہ اگر کسی کو 'طالبان خان' کہا جاتا ہے تو پھر وہ اس کا جواب ٹھیک اسی طرح کیوں نہیں دے سکتا؟ آخر ایک شخص کو طالبان کا ہمدرد کہنے اور اس کے مخالف کو امریکی ایجنٹ کہنے میں کیا فرق ہے؟ بظاھر تو کوئی فرق نہیں- لیکن اگر آپ اس کے نتائج پر غور کریں تو بہت واضح فرق ہے- اگر کسی کو 'طالبان' کہا جاۓ تو اس کے گھر پر ڈرون حملہ نہیں ہو جاۓ گا-

کسی کو 'غدار بکاؤ ایجنٹ' کہیں اور اسے ٹارگٹ لسٹ پر ضرور رکھ لیا جاۓ گا- مثال کے طور پر آپ باہر نکلیں، اور کسی شخص پر دہشتگرد ہونے کا الزام لگائیں جبکہ دوسرے پر توہین رسالت کا، پھر دیکھیں کسے گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کا گھر (حتیٰ کے بعض کیسز میں پوری کالونی ) جلا کر رکھ کر دیے جاتے ہیں- اور یہ سب دیکھنے کے لئے آپ کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا-

لیکن پھر، جھوٹی برابری بھی یہاں بڑی معروف چیز ہے- مثال کے طور پر یہ لائن لے لیں کہ، نظریاتی تقسیم میں انتہا پسند دونوں جانب موجود ہیں- یہ لائن اکثر تب سننے کو ملتی ہے جب کوئی دائیں بازو والا خصوصاً قابل اعتراض بات کہہ جاۓ اور اس کے چیلے چپاٹوں کو اس طرف سے توجہ ہٹانے کی ضرورت محسوس ہو-

"لبرل انتہا پسند اتنے ہی متعصب ہیں جتنے دائیں بازو کے انتہا پسند" آپ انہیں یہ کہتے سنیں گے- ہو سکتا ہے، لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں اگر آپ اسلامی نظریاتی کونسل کی حمایت کرتے ہیں تو کوئی لشکر سیکولری آپ کو قتل کرنے کے درپے نہیں ہے-

دوسری جانب مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بولنے کا مطلب آپ کی خیر نہیں- اس وقت ایک ایسا زہر ہم سب کے دل و دماغ میں پھیل چکا ہے کہ ہم میں سے بہت سے یہ سمجھتے ہیں کہ رومی صاحب نے اپنی شامت خود بلائی ہے، اور اس کی لپیٹ میں انکا بدقسمت ڈرائیور بھی آگیا ہے- جی ہاں ٹھیک انہی بدقسمتوں کی طرح جو ڈرون کا شکار ہوتے ہیں-

کیونکہ اگر آپ کوئی بحث جیت نہیں سکتے تو کم ز کم ان پانیوں ہی کو گدلا کردیں جن کی گہرائیوں میں چند اصل مگرمچھ موجود ہیں-

انگلش میں پڑھیں

مصنف ڈان کے سٹاف ممبر ہیں

ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں