مشرف کی والدہ کو پاکستان لانے کی حکومتی پیشکش

01 اپريل 2014
قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع نے ان خبروں کی ترید کی جن کے مطاطق حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج  کردیا ہے۔
قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع نے ان خبروں کی ترید کی جن کے مطاطق حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کردیا ہے۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پیر کو سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی بیمار والدہ کو شارجہ کے ہسپتال سے پاکستان لانے کی پیشکش کی ہے۔

اس بات پر حکومت نے خوشی کا اظہار کیا کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک فوجی حکمران پر خصوصی عدالت کی جانب سے فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔

حکومت نے واضح طور پر مشرف کی ملک سے باہر جانے پر عائد پابندی ختم سے انکار کردیا۔

پیر کے روز تین رکنی خصوصی عدالت کی جانب تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ، 60 سے زائد اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو معزول کرنے اور دیگر غیر آئینی اقدامات کے خلاف سابق فوجی صدر پر فردِ جرم عائد کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حیرانی کا اظہار کیا، آخر کیونکر آج کے اس اہم دن کی پارلیمنٹ میں تعریف نہیں کی جاسکتی۔

اس کے بعد وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور ان کی کابینہ کے دو اراکین نے سابق صدر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس موقع پر حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین نے بھی اسمبلی کی اس معمول کی بحث میں پی پی پی اور اس کے نوجوان سرپرستِ اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری پر کچھ نامعلوم شدت پسند گروپس کی جانب سے حملوں کی دھمکیوں اور صوبہ سندھ میں پولیس اور رینجرز کی جانب سے جرائم کی روک تھام کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے خصوصی عدالت کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اس بحث میں حصہ لیا۔

خیال رہے کہ خصوصی عدالت کی جانب سے پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد گزشتہ رات دارالحکومت اسلام آباد میں یہ قیاس آرائیاں گردش کرتی رہیں کہ حکومت نے پرویز مشرف کا نام ایل سی ایل سے خارج کرتے ہوئے انہیں اپنی 95 سالہ بیمار والدہ سے زرین مشرف سے ملنے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے۔

تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف ان خبروں یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ حکومت نے ان کی والدہ کو پاکستان لانے کی پیشکش کی ہے۔

محمد خان اچکزئی نے پہلے ہی پرویز مشرف کو شارجہ جانے کی اجازت دینے کی مخالفت کی اور وزیراعظم نواز شریف کا ذکر کیا کہ جب وہ جلاوطن تھے تو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے انہیں لاہور میں اپنے والد کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اسی طرح ہزاروں دیگر لوگوں کو بھی اب تک اپنے بیمار رشتے داروں سے ملنے کے لیے جیلوں سے بھی نہیں چھوڑا گیا ہے۔

انہوں اس موقع پر فرانسیسی جنرل اور ایک جزیرے پر سابق بادشاہ نپولین کی جلا وطنی کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ اگر حکومت مشرف کو معاف کرنے کے بارے میں بھی اگر سوچتی ہے تو بھی ایک 'علامتی سزا' دینا ضروری ہے۔

لیکن وزیر دفاع جو وزیراعظم نواز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے بعد ایوان میں آئے تھے، انہوں نے واضح کیا کہ یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ انہیں ایک علامتی سزا دیتی ہے یا سنگین غداری میں انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت عدالت کے ہر ممکنہ فیصلے پر عملدرآمد کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'نہ تو کوئی دباؤ قبول کیا جائے گا، اور نہ ہی حکومت پر اس حوالے سے کسی قسم کا دباؤ ہے۔'

ایوان میں سب زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ان اراکینِ اسمبلی کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، ایمرجنسی کے نفاذ کے مشرف کے اقدام کے حق میں جنہوں نے ووٹ دیا تھا اور انہوں نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا۔

یہ ریمارکس سابق صدر کے ان حمایتوں کے لیے تھے جن میں سے کئی اب حکومتی نشستوں پر موجود ہیں۔ ان کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) جس نے سابق صدر دور میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی۔

اس دوران دوسرے مقررین نے انتخابات میں فوجی حمایت اور سیاسی جماعتوں کو اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو شامل کرنے سے روکنے کے لیے آئین میں ترامیم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں