ماں اور بیٹی نے بطور احتجاج خود کو پنجرے میں بند کرلیا

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2014
پریس کلب لیّہ کے باہر ایک لڑکی نے اپنی ماں کے ہمراہ احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو
پریس کلب لیّہ کے باہر ایک لڑکی نے اپنی ماں کے ہمراہ احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو

لیّہ: تیرہ برس کی ایک لڑکی نے پیر کے روز اپنی والدہ کے ہمراہ ایک پنجرے میں بند ہوکر ڈسٹرکٹ پریس کلب کے سامنے اس بات پر احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے شخص کو رہا کردیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق چک 150-ٹی ڈی اے کی حسینہ بی بی کو مبینہ طور پر چند ماہ قبل ان کے رشتہ داروں نے اغوا کرلیا تھا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔

وہ کسی طرح اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوئی اور پولیس اسٹیشن جاکر ایک کیس درج کرایا۔

چوبیس مارچ کو حسینہ اپنے والد منظور احمد کے ساتھ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے دفتر گئی، انہوں نے لیّہ صدر پولیس اسٹیشن کو قانونی کارروائی کے لیے کہا۔

لڑکی کی شکایت پر لیّہ صدر پولیس نے ایک کیس نمبر 48/14 سیکشن 356-بی/376 کے تحت رحیم بخش، محمد قاسم، بشیر حسین اور ہاشم کے خلاف درج کرلیا۔

پولیس نے بشیر اور قاسم کو گرفتار کیا تھا، لیکن بعد میں صدر کے ایس ایچ او محمد افضل نے قومی اسمبلی کے رکن پیر ثقلین شاہ کے دباؤ پر ان دونوں کو رہا کردیا۔

ایف آئی آر میں حسینہ بی بی نے کہا ہے کہ مئی 2013ء میں وہ جب اپنے گھر پر اکیلی تھی تو رحیم وہاں آیا اور مبینہ طور پر اس نے گن پوائنٹ پر اس کا ریپ کردیا۔ اس نے اپنے والدین سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اس لیے کہ رحیم نے اسے قتل کردینے کی دھمکی دی تھی۔

لڑکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس کے بعد حاملہ ہوگئی تھی، دو مہینے بعد جولائی 2013ء میں قاسم، اس کی بیوی سکینہ مائی، رحیم اور بشیر اس کا اسقاطِ حمل کروانے کے لیے اسے اُٹھا کر ڈیرہ غازی خان میں واہوا کے علاقے میں لےگئے، جہاں پر وہ تین دن تک اس کے ساتھ اجتماعی طور جنسی زیادتی کرتے رہے۔

اس نے بتایا کہ ملزموں نے اس کے انگوٹھے کا نشان ایک سادہ کاغذ پر لے لیا تھا۔

لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے فروری 2014ء میں ایک بچی کو جنم دیا اور مارچ میں وہ اپنے گھر واپس لوٹنے میں کامیاب ہوسکی۔

جب ایس ایچ او افضل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پولیس نے بشیر اور قاسم کو حراست میں لے لیا تھا، لیکن شکایت درج کرانے والوں نے اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا۔

ایس ایچ او نے کہا ’’اس کے نتیجے میں ہم نے مشتبہ افراد کو رکن قومی اسمبلی پیر ثقلین کی درخواست پر رہا کردیا۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مشتبہ افراد سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ تحقیقات میں شامل رہیں گے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر غازی صلاح الدین نے کہا کہ رہا ہونے والے دونوں ملزموں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور وہ تفتیش مکمل ہونے تک پولیس کی حراست میں رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں