اسلام آباد: جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی نوجوان لڑکی جس نے بطور احتجاج مظفرگڑھ پولیس اسٹیشن کے سامنے خود کو نذرِ آتش کردیا تھا، اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا تھا، اس کی والدہ نظام مائی نے بدھ کے روز کہا کہ ان پر ایک معاہدے کے ذریعے اس معاملے کو دبادینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

نظام مائی نے اس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد ڈان کو بتایا کہ ’’ہم موت سے خوفزدہ ہیں۔ ہم زیادہ عرصے تک لنڈی پٹافی گاؤں میں نہیں رہ سکتے۔‘‘

وہ اور ان کے شوہر نے ایک مقامی پولیس افسر اسلم اور اس علاقے کے ایک بااثر شخص رمضان سندھی پر الزام عائد کیا کہ وہ ملزم کو تحفظ فراہم کررہے ہیں اور مظلوم لڑکی کے خاندان پر اس کیس کو واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے فرسٹ ایئر کی طالبہ کی ہلاکت پر ازخود نوٹس لیا تھا، اس طالبہ نے ایک پولیس رپورٹ کے خلاف بطور احتجاج مظفر گڑھ سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹ میر ہزار کے علاقے میں خودسوزی کرلی تھی۔اس پولیس رپورٹ سے ریپ کے مبینہ ملزم کو ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔

میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اٹھارہ برس کی یہ طالبہ پانچ جون کو جب کالج سے گھر واپس آرہی تھی تو ملزم نے اپنے چار ساتھیوں کی مدد سے میبنہ طور پر ایک ویران علاقے میں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

اس معاملے کا ایک کیس درج کیا گیا تھا، لیکن متاثرہ لڑکی کے بیان اور ریکارڈ پر موجود ثبوت کے باوجود اس کو خارج کردیا گیا۔

چودہ مارچ کو اس کی والدہ اور دوسرے رشتہ داروں نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج شروع کیا۔

کالج کی اس طالبہ نے خود کو نذرآتش کرلیا اور بعد میں اس نے نشتر ہسپتال ملتان میں دم توڑ دیا۔

بدھ کے روز اس طالبہ کی والدہ نظام مائی اور والد غلام فرید عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت سے گزارش کی کہ وہ اپنے گاؤں میں خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں، اس لیے کچھ پولیس اہلکار ملزم کو تحفط دے رہے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

غلام فرید نے کہا کہ یہ پولیس اہلکار جو ملزم کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

متاثرہ لڑکی کے والدین کی شکایت سننے کے بعد پنجاب کے قائم مقام ایڈوکیٹ جنرل مصطفٰے رمدے نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مظفرگڑھ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے رابطہ کرکے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

قائم مقام ایڈوکیٹ نے کہا کہ متاثرہ لڑکی کے والدین اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کو ضرورت پڑنے پر تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ پولیس افسر جس پر جانبدارانہ تفتیش کرنے کا الزام ہے، اس کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے، اور ملزم کو بےگناہ قرار دینے والی رپورٹ کی جس ڈی ایس پی نے توثیق کی تھی، اس کے خلاف پندرہ مارچ کوبیٹ میرہزار پولیس اسٹیشن میں پی پی سی کے سیکشن 201/322 کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات اور پولیس آرڈر 2002ء کے سیکشن 5-سی کے تحت ایک علیحدہ کیس درج کرلیا گیا تھا، تاہم اس ڈی ایس پی نے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرلی تھی۔

مصطفٰے رمدے نے کہا کہ اس المیے کی تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔ ان تحقیقات کو لاہور میں قائم پنجاب فارنسک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ وصول ہونے کے بعد حتمی شکل دے دی جائے گی۔

عدالت نے اس مقدمے کی مزید کارروائی اکیس اپریل تک ملتوی کردی، اور پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ تحقیقات کے بارے میں حتمی رپورٹ کی یقین دہانی کرائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں