پارلیمنٹ سب سے طاقتور ادارہ ہے: وفاقی وزراء

09 اپريل 2014
قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عوام کا پارلیمنٹ سے اعتماد کم نہیں ہوا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عوام کا پارلیمنٹ سے اعتماد کم نہیں ہوا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے اس عزم کا اظہار کہ فوج اپنے وقار کا دلجمعی کے ساتھ تحفظ کرے گی، کے اگلے دن منگل کے روز حکومت کے دو سینئر وزراء نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اس تصور کو مسترد کردیا کہ عوام کے اندر پارلیمنٹ پر اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے، جبکہ انہوں نے انتخابات میں اس کے لیے ووٹ ڈالے ہیں۔

اس ایوان کے سولہ روزہ اجلاس کے آخری دن پیر کے دن شور شرابے کے دوران حکومت نے متنازعہ انسدادِ دہشت گردی بل کو باآسانی منظور کروالیا تھا۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، دونوں فریقین میں سے کسی بھی رکن اسمبلی نے خیبرپختونخوا میں کمانڈو بیس پر فوجی سربراہ کی تقریر کا براہِ راست حوالہ نہیں دیا۔ جبکہ دیکھنے میں تو یہی آرہا تھا کہ یہ تقریر سیاستدانوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

لیکن پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف جن کے پاس وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی ہے، اس جانب نہایت واضح طور پر اشارہ کرتے محسوس ہوئے، جب انہوں نے پارلیمنٹ کے اراکین کو مشورہ دیا کہ خود احتسابی کی تمام حدیں پار نہ کرجائیں، جبکہ دیگر تمام ادارے اپنا اور اپنے اراکین کا دفاع کررہے ہیں۔

پارلیمنٹ کو ملک سب سے طاقتور ادارہ قرار دیتے ہوئے وزیرِ دفاع نے کہا کہ اس کے اراکین لازمی طور پر اس کی حفاظت کریں، کہ دیگر کسی بھی ادارے کی جانب سے اس کو روندا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو بدنام کرنے سے ہمارے اپنے ادارے کی تحقیر ہوتی ہے۔

خواجہ آصف نے اس بات کا بھی حوالہ دیا کہ جب بھی کوئی ڈکٹیٹر ملک میں آتا ہے تو سیاستدانوں کی جانب سے اس کی حمایت کی جاتی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’’جب بھی غاصب اقتدار پر قبضہ کرتا ہے ہماری اپنی برادری کے ارکان اس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔‘‘

ان سے پہلے وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ یہ فرض کرلینا غلط ہے کہ عوام کو اراکین پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر عوام نے طویل قطاروں میں کھڑے ہوکر انہیں منتخب کرنے کے لیے ووٹ کیوں کاسٹ کیے تھے؟

نجی بلوں کی کثرت:

یہ دن گویا نجی اراکین کا دن تھا، حکومت نے دونوں فریقین کے اراکین اسمبلی کی جانب سے دس نجی بلوں کی اجازت دی تھی، جن میں ایک پی ٹی آئی کے دو اراکین کی جانب سے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے تھا، جسے وفاقی وزیر نے حقیقی معنوں میں ترقی پسند بل قرار دیا۔ واضح رہے کہ پرویز رشید کے پاس وزارتِ قانون کا قلمدان بھی ہے۔

پارلیمانی امور کے وزیرِ مملکت شیخ آفتاب احمد نے ایوان کو بتایا کہ ان کی وزارت نے متعلقہ محکمے سے ایک تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے، جس کی نشاندہی پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ اور دیگر اراکین نے اپنے بل میں کی تھی۔ وزیرِ مملکت نے اس بل کو نہایت اہم بل قرار دیا۔نفیسہ شاہ کے بل میں ایک خودمختار قومی فضائی ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس کے تحت بین الاقوامی فضائی سیفٹی کے معیار کے نفاذ کو یقینی بنائے جائے۔

لیکن پیپلزپارٹی کی ایک اور رکن شازیہ مری کو اسی طرح کی مطابقت سے محروم کردیا گیا تھا، ان کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب پر ڈیڑھ سال سے جاری پابندی کو ختم کیا جائے، ان کی قرارداد یکم اپریل کو نجی اراکین کے دن اس قرارداد پر غیرفیصلہ کن بحث کے بعد اس روز بھی ایجنڈے میں شامل نہیں کی گئی۔

ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ان کی ایک اور قرارداد کی اجازت نہیں دی، جسے انہوں نے مشترکہ قرارداد قرار دیا تھا، کہ اس کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنایا جائے۔

ایوان میں پی ٹی آئی کے غلام سرور خان کی جوشیلی تقریر سنی گئی، سپریم کورٹ کی طرف سے جعلی ڈگری رکھنے کے الزامات پر نو مہینے کی معطلی کے بعد ان کی نشست کی بحال ہوئی تھی۔

غلام سرور خان نے دو انتخابی حلقوں میں سے ایک پر وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو شکست دی تھی، وفاقی وزیر نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ سے انتخاب لڑا تھا۔ اپنی معطلی کو سیاسی انتقام اور عدلیہ کی فعالیت کا ایک منفرد کیس قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس پر اگلے اجلاس میں تفصیل سے بات کریں گے، جب اس تمام سازش کے پس پردہ شخصیت بھی اس ایوان میں موجود ہوگی۔

پیرزادہ کے اشارے:

یہ ایک متعلقہ وفاقی وزیر کے لیے یا ایک حکمران پارٹى کے سربراہ کے انوکھی بات نہیں ہے کہ وہ اسپیکر کے روسٹرم پر جاکر ایوان کے سامنے کاروائی کے بارے میں یا کارروائی ملتوی کرنے کے بارے میں کوئی مشورہ دیں۔

لیکن منگل کے روز اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے تھک جانے والے بین الصوبائی رابطہ وزیر ریاض حسین پیرزادہ اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے دیکھے گئے، وہ بظاہر کارروائی کو ختم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ اور ڈپٹی اسپیکر ان کے اشاروں کو نظرانداز نہ کرسکے اور انہوں نے شازیہ مری کی درخواست کو بیچ میں سے کاٹ دیا، اور اجلاس کو ملتوی کردیا۔ شازیہ مری پولیو کے خاتمے پر ایک قرارداد پیش کرناچاہتی تھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

ISRAR MUHAMMAD Apr 09, 2014 05:34pm
‏ سپاہ‏ ‏سالار‏ ‏کے‏ ‏بیان‏ ‏پر‏ ‏‏شور‏ ‏شرابے‏ ‏کی‏ ‏ضرورت‏ ‏نہیں‏ ‏اورنہ‏ ‏‏اس‏ ‏سے‏ ‏کچھ‏ ‏حاصل‏ ‏ھوگا‏ ‏حکومت‏ ‏ھمت‏ ‏کرے‏ ‏اب‏ ‏کوئی‏ ‏پرانا‏ ‏مشق‏ ‏نہیں‏ ‏کرسکتا‏ ‏اور‏ ‏نہ‏ ‏کوئی‏ ‏اسکو‏ ‏قبول‏ ‏کرے‏ ‏گا‏ ‏یہ‏ ‏سب‏ ‏دباؤ‏ ‏ڈالنے‏ ‏کیلئے‏ ‏ھورھا‏ ‏ھے‏ حکومت‏ ‏کو‏ ‏چاھیے‏ ‏کہ‏ ‏سپاہ‏ ‏سالار‏ ‏سے‏ ‏اسکی‏ ‏بیان‏ ‏کے‏ ‏حوالے‏ ‏سے‏ ‏وضاحت‏ ‏طلب‏ ‏کریں‏ ‏‏ ‏جوکہ‏ ‏حکومت‏ ‏کا‏ ‏احتیار‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏فرض‏ ‏بھی‏ ‏
ISRAR MUHAMMAD Apr 10, 2014 01:25am
اس‏ ‏میں‏‏ ‏کوئی‏ ‏شک‏ ‏شعبے‏ ‏کی‏ ‏بات‏ ‏ہی‏ ‏نہیں‏ ‏ھے‏ ‏پا‏رلیمان‏ ‏ھی‏ ‏اس‏ ‏ملک‏ ‏کا‏‏ ‏سپریم‏ ‏‏ ‏ادارہ‏ ‏ھے ‏اس‏ ‏ملک‏ ‏کے‏ ‏قانون‏ ‏کے‏ ‏تحت‏ ‏ایک‏ ‏بااختیار‏ ‏ادارہ‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏سب‏ ‏طاقتور‏ ‏بھی‏ سپاہ سالار کے بیان پر اتنا واویلا کیوں سپاہ سالارکو بلاکر ان سے بیان کی وضاحت طلب کی جائے‎ ‎انکی وضاحت سے سب کچھ صاف ھوجائیگا صرف ‏ایک بیان پر اتنی ہلچل کیوں آخر حکومت اتنی کمزوری کا مظاہرہ کیوں کررہی ھے فوج ایک ماتحت ادارہ ھے اور ائین میں تمام اداروں کے احتیارات اور فرائض کی وضاحت ھوچگی ھے اس میں کوئی دو رائے نہیں‏ ‏ ‏