پشاور: حکام کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبے کی اتحادی حکومت کی جانب سے صوبائی کابینہ میں ردّوبدل کے نتیجے میں ایسی وزارتیں جو نئے وزیروں کو دی گئی ہیں، ان کے محکموں میں دفتری کام رک گیا ہے۔

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ایک فیصلے کے بعد دو اپریل کو خیبر پختونخوا کی حکومت نے پانچ نئے وزراء کابینہ میں شامل کیے تھے اور کابینہ کے دو اراکین کے محکموں میں ردوبدل کیا تھا۔

سینئر حکام کا کہنا ہے کہ ’’کیونکہ وزراء کے قلمدانوں کے ردّوبدل کے بارے میں کوئی مناسب سمری نہیں دی گئی ہے، اس لیے ایک متعلقہ محکموں کے لیے ایک غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

ترتیب ثانی میں شہرام خان ترہ کئی جن کے پاس وزیرِ زراعت کا قلمدان تھا، ان کو محکمہ صحت کا چارج دے دیا گیا تھا۔ جبکہ وزیرِ صحت شوکت یوسف زئی کو وزیرِ صنعت بنایا گیا تھا۔

پارٹی کے چیئرمین اور وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کی جانب سے زبانی طور پر مطلع کیے جانے کے بعد دونوں نے اپنے پچھلے محکموں کے لیے بطور وزیر کام کرنا بند کردیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں اب تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔ ٹیکنیکلی دونوں وزیروں کے پاس پچھلے ہی قلمدان ہیں، لیکن دونوں ہی نے ناصرف بطور وزیر اِن محکموں کے لیے کام کرنا بند کردیا ہے بلکہ اپنے نئے محکموں کے حکام کے ساتھ میٹنگز بھی شروع کردی ہیں۔حالانکہ قانونی اور تیکنیکی لحاظ سے وہ ان محکموں کے انچارج نہیں ہیں۔

ان کے مطابق سینئر وزیر شہرام خان ترہ کئی، جنہیں شوکت یوسف زئی کی جگہ وزیرِ صحت بنایا گیا ہے، کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اپنے نئے محکمے کے معاملات کے بارے میں کوئی ہدایات جاری نہیں کرسکتے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک یہ سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوجاتا کہ انہیں وزیرِ صحت بنادیا گیاہے، وہ تاحال وزیرِ زراعت ہیں۔

شہرام خان ترہ کئی نے ڈان کو بتایا ’’یہ درست ہے کہ اب تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں سرکاری کاموں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میں وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کی مہربانیوں سے کام کر رہا ہوں، جنہوں نے مجھے بطور وزیرِ صحت کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ردّوبدل کے سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جلد جاری کردیا جائے گا۔تاحال یہ وزیرمحکمہ زراعت کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لیے کہ وہ محکمہ صحت میں ہدایات جاری نہیں کرسکتے۔

ردّوبدل کے بعد شوکت یوسف زئی جن کے پاس اب وزارت صنعت کا قلمدان ہے، جب تک متعلقہ محکمے کے لیے ایک نوٹیفیکشن جاری نہیں ہوجاتا، سرکاری طور پر صوبائی وزیر برائے صحت ہیں۔

اتوار کے روز شوکت یوسف زئی نے اس حقیقت کے باوجود کہ وہ اب وزیرِ صحت نہیں رہے، صحت کا انصاف پروگرام کے دسویں مرحلے کا افتتاح کیا۔

اسی روز شہرام خان ترہ کئی نے صحت کا انصاف پروگرام کی مہم کا افتتاح کرنے کے لیے صوابی، مردان اور چارسدہ ضلعوں کا دورہ کیا۔ اسی دن شام کو وہ ایک پریس کانفرنس کے لیے پشاور لوٹ آئے۔

شوکت یوسف زئی نے اکتیس مارچ کو پشاور میں صحت کا انصاف پروگرام کے نویں مرحلے کے آغاز میں شمولیت اختیار کی تھی، جس کا افتتاح شہرام خان ترہ کئی نے کیا تھا۔

دونوں وزراء نے ایک ہی مہم کا ایک ہی مقام پر افتتاح کیا، اس لیے کہ دونوں خود کو محکمہ صحت کا سربراہ خیال کررہے تھے۔

محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ ’’یہ بدانتظامی کی ایک مثال ہے۔ ہم تحریری ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ہمیں ضرورت ہے کہ حکومت ایک وزیر کے بارے میں مطلع کرے۔‘‘

ان کے مطابق محکمہ صحت نے صحت کے پروگرام پر شہرام خان ترہ کئی کو مکمل بریفنگ دی تھی، لیکن انہیں مکمل اختیارات بطور وزیر اس وقت مل پائیں گے، جب ان کے بارے میں نوٹس جاری کردیا جائے گا۔

شوکت یوسف زئی تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ ٹیکنیکلی طور پر وہ اب بھی وزیرِ صحت ہیں، تاہم انہوں نے شہرام ترہ کئی کے اعزاز میں آفس جانا بند کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنی توجہ صنعتی محکمے پر مرکوز کررہا ہوں۔‘‘ انہوں نے تسلیم کیا کہ ٹیکنیکلی طور پر خیبرپختونخوا کی کابینہ میں ردّوبدل کا نوٹس جاری نہ ہونے سے الجھن پیدا ہورہی ہے، ان کے وزیرِ صنعت کا نوٹس اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔

شوکت یوسف زئی نے کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ یہ نوٹیفکیشن ضابطے کے تحت جاری کردیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ صحت میں جمود پیدا ہوگیا ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے ساتھ پارٹی کے فارورڈ بلاک کی اسلام آباد میں ملاقات کے بعد ان کے اعلان کے ساتھ موجود ہ الجھن میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ وہ ردّبدل کریں گے اور نئے وزراء تاحکم ثانی اسی وزارت پر برقرار رہیں گے۔

شہرام خان ترہ کئی کو یقین ہے کہ عمران خان کا اعلان ردّوبدل پر اثرانداز نہیں ہوا ہے اور یہ کہ وزیرِ اعلٰی نے ان سے کہا کہ وہ بطور وزیرِ صحت اپنا کام جاری رکھیں۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ دونوں محکموں میں کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پالیسی فیصلہ اس وقت تک نہیں لیا جاسکتا، جب تک کہ انہیں معلوم نہ ہو کہ ان کا باس کون ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں