انڈین الیکشن: 11 ریاستوں کی 91 نشستوں پر پولنگ جاری

اپ ڈیٹ 10 اپريل 2014
دہلی میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایک مسلمان خاتون اپنی انگلی پر لگے روشنائی کا نشان دکھا رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
دہلی میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایک مسلمان خاتون اپنی انگلی پر لگے روشنائی کا نشان دکھا رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز کی طویل قطار۔ —. فوٹو انڈیا ٹوڈے
دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز کی طویل قطار۔ —. فوٹو انڈیا ٹوڈے

نئی دہلی: ہندوستان کی گیارہ ریاستوں اور تین یونین ٹیریٹیریز سمیت قومی دارالحکومت دہلی کے اکیانوے انتخابی حلقوں میں نو مرحلوں پر مشتمل لوک سبھا کے انتخابات کے تیسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔

دہلی کی کل سات سیٹوں کے علاوہ ہریانہ، اتر پردیش، مہاراشٹر اور اُڑیسہ کی دس، مدھیہ پردیش کی نو، بِہار کی چھ، جھارکھنڈ کی چار اور کیرالہ کے بیس نشستوں پر امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔

اس کے علاوہ چھتیس گڑھ، جموں و کشمیر، چنڈی گڑھ، انڈیمان و نکوبار اور لکش دیپ کی ایک ایک سیٹ کے لیے بھی پولنگ ہورہی ہے۔

ان اکیانوے سیٹوں پر تقریباً گیارہ کروڑ ووٹر کل چودہ سو اٹھارہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

مغربی اترپردیش میں پولنگ کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور چھ سو سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ فسادات کے بعد عارضی کیمپوں میں رہنے والے لوگ بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے ووٹنگ کارڈ نہ ملنے کی شکایت بھی کی ہے۔

یاد رہے کہ مغربی اتر پردیش کے دس انتخابی حلقوں میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز ہیں۔

ہندوستان بھر کی نگاہیں دہلی کی ساتوں نشستوں کے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ دہلی کے سات انتخابی حلقوں میں تقریباً ایک کروڑ ستائیس لاکھ ووٹرز ہیں جو کل ڈیڑھ سو امیدواروں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کریں گے۔

دہلی میں جن لوگوں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے ان میں کانگریس کے مرکزی وزیر کپل سبل اور کرشنا تيرتھ، سابق مرکزی وزیر اجے ماکن، ریاست دہلی میں بی جے پی کے سینئر لیڈر ہرش وردھن، ریاست دہلی میں کانگریس کے سابق صدر جے پی اگروال، دہلی کی سابق وزیر اعلٰی شیلا ڈکشت کے بیٹے سندیپ ڈکشت جیسےمعروف نام شامل ہیں۔

بی جے پی کے ٹکٹ پر پارٹی کی ترجمان مینا کشی لیکھی اور بھوجپوری گلوکار منوج تیواڑی بھی انتخابی میدان میں ہیں جبکہ عام آدمی پارٹی کی طرف سے دہلی حکومت کی سابق وزیر راکھی بڑلان، اور معروف ٹی وی صحافی اشوتوش جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

دہلی کے علاوہ ہندوستان کی نظریں مغربی اتر پردیش کے دس انتخابی حلقوں پر پر بھی مرکوز ہوں گی۔ ان میں فساد سے متاثر مظفرنگر، کیرانہ، سہارنپور، میرٹھ، بجنور، بلند شہر، علی گڑھ، باغپت، غازی آباد، گوتم بدھ نگر (نوئیڈا ) کے انتخابی حلقے بھی شامل ہیں۔

راشٹریہ لوک دل کے صدر اور مرکزی وزیر اجیت سنگھ بھی باغپت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

غازی آباد سے سابق چیف جنرل وی کے سنگھ بھی مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ مغربی اتر پردیش سے اداکارہ جیا پردا آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر بجنور سے، اداکارہ نغمہ کانگریس کے ٹکٹ پر میرٹھ سے اور راج ببر کانگریس کے ٹکٹ پر غازی آباد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

مہاراشٹر میں اترپردیش کے بعد لوک سبھا کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں، وہاں آج لوک سبھا اڑتالیس نشستوں میں سے دس میں پولنگ ہورہی ہے۔ ان انتخابی حلقوں میں لگ بھگ ایک کروڑ اکیس لاکھ پچھتر ہزار ووٹرز ہیں۔

بی جے پی چھ جبکہ اس کی اتحادی جماعت شیوسینا چار نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے۔ کانگریس نے سات نشستوں کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ اس کی اتحادی نیشنل کانگریس پارٹی (این سی پی) تین نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے۔ بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے دس نشستوں پر اورکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے ایک نشست کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

مہاراشٹر میں بھلدانہ، الوکا، امراوتی، واردھا، رامٹیک، ناگپور، بھنڈارا گونڈیا، گڈچرولی، چرمر، چندراپور، یاواتمل واشم کے انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ یہاں سب سے بڑا انتخابی حلقہ ناگپور کا ہے، جہاں سولہ لاکھ انتیس ہزار سات سو چھپن ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔

چندی گڑھ میں دو بالی وڈ اسٹارز بی جے پی کی طرف سے کرن کھیر اور عام آدمی پارٹی کی جانب سے گل پناگ نے کانگریس کے امیدوار اور سابق مرکزی وزیر ریلوے پون کمار بنسل کو مشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔

مدھیہ پردیش کے چھدواڑا سے مرکزی وزیر کمل ناتھ کی قسمت کا بھی آج ہی فیصلہ ہوگا۔

دوسری جانب اُڑیسہ میں لوک سبھا کے ساتھ ساتھ ریاستی اسمبلی کے انتخابات بھی ہو رہے ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ اس میں جنتا دل کا پلڑا بھاری رہے گا۔

2009ء کے دوران ہونے والے پچھلے عام انتخابات میں ان اکیانوے نشستوں میں سے پینتالیس پر کانگریس کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو محض تیرہ نشستوں پر کامیابی مل سکی تھی، لیکن اس مرتبہ رائے عامہ کے جائزوں میں بی جے پی کی گرفت مضبوط بتائی جارہی ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد سولہویں لوک سبھا کی تشکیل کے لیے ملک بھر میں نو مراحل میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔ سات اپریل کو شروع ہونے والے عام انتخابات بارہ مئی کو ختم ہوں گے۔ 16 مئی کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں