'چند افراد کی وجہ سے فوج کو فریق نہیں بنانا چاہیٔے'

10 اپريل 2014
مولانا فضل الرحمان—فائل فوٹو۔
مولانا فضل الرحمان—فائل فوٹو۔

مانسہرہ: جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فوج ایک قومی ادارہ اور ملک کی عزت ہے، کسی فرد کی وجہ سے اس کو فریق نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے گزشتہ روز بدھ کو یہاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'فوج ایک قومی ادارہ ہے اور اس کا ایک وقار ہے چنانچہ اسے ایک پارٹی نہیں بنانا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت حکومت اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے 2008ء میں دونوں فریقین کو ایک میز پر لانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس مقصد کے لیے ایک جرگہ بھی منعقد کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اب کون فیصلہ کرے گا کہ اسلام آباد دھماکے کے پیچھے کون ملوث تھا جس میں معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ ریاستی دشمن عناصر اس شدت پسند حملے میں ملوث ہیں جو حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں خلل پیدا کرنا چاہتے ہیں'۔

جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں، طالبان اور حکومت کو اس طرح کے عناصر سے محتاط رہنا چاہیے جو اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے اندر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور جب تک اس بل کی کچھ شقوں کو خارج نہیں کیا جاتا ان کی جماعت اس کی مخالفت کرتی رہے گی۔

مولانا فضل الرحمان نے ان لوگوں کے بارے میں بھی سخت تنقید کی جو اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مغربی لابی کے ایجنٹ ہیں اور اسلامک ری پبلک کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایسے لوگوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ نے کہا کہ 'اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر ہیں اور جو اس پر تنقید کرتے ہیں وہ ملک میں مغربی ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ جو اسمبلی آئینِ پاکستان کی مخالفت کرے اسے تحلیل کردینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت اپنی 'غلط' پالیسیوں پر ہمارے تحفظات کو دور نہیں کرے گی اس وقت تک ان کی جماعت کے اراکین وفاقی کابینہ میں محکموں کو قبول نہیں کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت غلط پالیسیوں کی حمایت نہیں کرے گی۔ حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں