اسلام آباد دھماکہ: تفتیش سے یوبی اے کے دعوے کی تصدیق

اپ ڈیٹ 11 اپريل 2014
تفتیش کار دھماکے کی جگہ پر سے شواہد اکھٹا کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
تفتیش کار دھماکے کی جگہ پر سے شواہد اکھٹا کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: تفتیش کاروں کو حاصل ہونے والی تفصیلات سے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی ہے کہ بدھ کے روز اسلام آباد کی فروٹ اور سبزی منڈی میں دھماکہ ان کی جانب سے کیا گیا تھا، جس میں چوبیس افراد ہلاک اور 122 زخمی ہوئے تھے۔

وزارتِ داخلہ نے ابتداء میں کالعدم یو بی اے کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا۔

اس تحقیقات سے آگاہ حکام نے جمعرات کو ڈان کو بتایا کہ خصوصاً بلوچستان کا صوبائی محکمہ پولیس اور فرنٹیئر کور نے یو بی اے کے مجرمانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس اداروں سے حاصل ہونے والے عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائی کے مختلف طریقہ کار اور ان کے پروفائلز سے اس ہلاکت خیز واقعہ کی تفتیش میں پولیس کو کافی مدد ملے گی۔

حکام میں سے ایک نے کہا کہ ’’اگرچہ یو بی اے کو وفاقی دارالحکومت میں کسی بھی دہشت گرد سرگرمی میں ملؤث نہیں پایا گیا تھا، تاہم اس کے دعوے کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو سوات، بونیر اور باجوڑ میں فوج کے خلاف لڑائی میں مبینہ طور پر ملؤث ہونے کی وجہ سے اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

جب ان کی توجہ وزارتِ داخلہ کے اس بیان کی جانب مبذول کروائی گئی کہ یو بی اے سبزی منڈی کے بم دھماکے میں ملؤث نہیں تھی، تو مذکورہ اہلکار نے کہا کہ تفتیش کار اس سے آگاہ نہیں تھے۔

مذکورہ اہلکار نے کہا کہ چونکہ تفتیش ابتدائی مراحل میں تھیں، اسی بناء پر کسی بھی تنظیم کے ملؤث ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یو بی اے پر توجہ اس لیے مرکوز ہوئی تھی کہ اس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔اس دعوے کی وجہ سے ہی تفتیش کار ان بلوچ افراد کو تلاش کررہے ہیں جو فروٹ کے کاروبار سے منسلک تھے۔

حکام نے کہا کہ ان دہشت گردوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، جو اس دھماکے میں ملؤث تھے، ایسا اس لیے ممکن ہے کہ اس بم کوریموٹ کنٹرول کے ذریعے اُڑایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ خیز ڈیوائسز کو موبائل فون سمیت مختلف آلات کے ذریعے اُڑایا جاتا ہے۔

وہ شخص جس نے بم کو اُڑایا، قریبی علاقے میں موجود تھا، اور اسے موبائل فون نمبروں کی جیو فینسنگ کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حکام نے مزید بتایا کہ سبزی منڈی کے اردگرد کام کرنے والے موبائل فون نمبروں کا ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کے بارے میں بھی تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔

حکام نے بتایا کہ پولیس نے دس مشتبہ لوگوں کو قبولہ اور تین کو وہاڑی سے گرفتار کیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں سے ایک منی ٹرک کی شناخت کروائی گئی تھی، جس کے بارے میں خیال تھا کہ اس میں دھماکہ خیز مواد لایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ لوگ امرود کے فارمرز، تاجر اور ٹرانسپورٹرز تھے۔

شبہ کی بنیاد پر پچیس افراد کو اسلام آباد سے اُٹھایا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سبزی منڈی کے تاجروں نے ان کو دھماکے کے وقت مشتبہ حالت میں گھومتے دیکھا تھا۔

تفتیش کار اس بات کی تحقیق کررہے ہیں کہ دھماکہ خیز ڈیوائس ٹرک میں رکھ کر لائی گئی تھی یا پھر پھلوں کے ساتھ رکھ دی گئی تھی۔

اس سے قبل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ کی اس درخواست کو مسترد کردیا تھا کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے ہر فرد کا اندرونی پوسٹمارٹم کروایا جائے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پولیس کا مطلع کیا کہ چوبیس لاشوں کا پوسٹمارٹم تین سے چار دنوں کے اندر کیا جاسکتا ہے، حکام نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں عملے کی کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے یہ درخواست اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس پر خودکش حملے کی تفتیش میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔

اس لیے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، جو حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، کی لاش کے بیرونی پوسٹمارٹم سے تفتیش کاروں کو یہ طے کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ انہیں حملہ آوروں نے ہلاک کیا تھا یا پھر ان کے گن مین نے۔

اے ایف پی:

وزارت داخلہ نے یو بی اے کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا کہ سبزی منڈی کے بم دھماکہ اس کی جانب سے کیا گیا تھا۔

وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’’ابتدائی تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ کل ہونے والے دھماکے میں یونائیٹڈ بلوچ آرمی ملؤث نہیں ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنا حیرت انگیز ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔‘‘

بلوچستان کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ انہوں نے وزارتِ داخلہ سے یو بی اے کے دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’بلوچ گروپس بلوچستان سے باہر حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ بلوچستان میں بھی وہ مخصوص علاقوں تک محدود ہیں، جہاں پر وہ حملے کرتے ہیں۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں