پی پی او: اپوزیشن نے سینیٹ میں مخالفت کی حکمت عملی تیار کرلی

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2014
سینیٹ کے اجلاس کا ایک منظر۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
سینیٹ کے اجلاس کا ایک منظر۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: ذرائع کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے جمعہ کے روز تحفظ پاکستان آرڈیننس (پی پی او) کو سینیٹ میں بلاک کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی۔

یہ متنازعہ قانون پیر کے روز شروع ہونے والے سینیٹ کے اجلاس کے دوران پیش کیا جائے گا۔

حکمران جماعت کے لیے ایک پریشان کن پیش رفت میں ناصرف حزبِ اختلاف کی چار اہم جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی ایوانِ بالا میں اس قانون سازی کو روکنے کی کوشش کریں گی، بلکہ جمیعت علمائے اسلام فضل کی جانب سے بھی ان کی حمایت کی جائے گی، جس کی مسلم لیگ نون سے خاصی دوری پیدا ہوچکی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے جمعہ کے روز مجوزہ قانون کو سینیٹ میں روکنے کے سلسلے میں لائن آف ایکشن وضع کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کیے۔

ایم کیو ایم کے رہنما بابر خان غوری نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا، انہوں نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، مثلاً پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن، اے این پی کے حاجی عدیل اور مسلم لیگ ق کے کامل آغاکے ساتھ فون پر رابطے کیے۔

بابر غوری نے مجوزہ قانون کو بے رحمانہ، آمرانہ، غیرانسانی، خونی اور بدترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی ہر فورم پر اس کی مخالفت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور اے این پی کے رہنماؤں نے ان کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایوانِ بالا سے اس کو گزرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما فرحت اللہ خان بابر نے کہا کہ ’’سب سے پہلے تو جب متعلقہ وزیر اسے ایوان میں پیش کرنے کی اجازت چاہے گا، تو ہم پی پی او کو اس ایوان میں متعارف کروانے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اگر حکمران جماعت اس بل کو پیش کرنے کا انتظام کرلیتی ہے تو حزبِ اختلاف اس کی مخالفت کرے گی، اور اسے ضروری ترمیم کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے کرنے کی تجویز پیش دے گی۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور جمیعت علمائے اسلام فضل کے سینیٹر پیر کے روز ایوان کا اجلاس شروع ہونےسے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے، تاکہ اپنے منصوبے کو حتمی صورت دے سکیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’پی پی او دہشت گردوں سے ملک کو تحفظ نہیں دے گا، بلکہ یہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس بات کا لائسنس دے گا کہ وہ لوگوں کو اغوا کرنے اور ملک بھر میں لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔‘‘

انہوں نے پی پی او کو اقوامِ متحدہ کے تحت توثیق کردہ پاکستان کی ذمہ داریوں کے خلاف جنگ کی قرارداد ہے، جن میں تشدد کے خلاف کنونشن، شہری و سیاسی حقوق کے تحفظ کا کنونشن شامل ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’یہ بلوچستان، کراچی اور دیگر علاقوں کے معاملات کو بدتر بنانے کی ایک ترکیب ہے، جہاں قانون نافذکرنے والوں کی لاپروائی نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا رکھی ہے۔‘‘

تحفظ پاکستان آرڈیننس سیکیورٹی ایجنسیوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ’قابلِ اعتماد اطلاعات‘ پر کسی شخص کو بھی گرفتار کرسکتی ہیں، جو ریاست کے مخالف سرگرمیوں، دہشت گردی اور غداری میں ملوث ہوں۔ تاہم اس آرڈیننس میں ’قابلِ اعتماداطلاعات‘ کی وضاحت نہیں کی گئی۔

پی پی او پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ کے سامنے اپیل کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا اپیل کے وقت کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کو چالیس دن تک بڑھانا چاہیٔے اور اس میں نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹس میں اپیل کی شرط ہونی چاہیٔے، اس لیے کہ اپیل کنندہ کی اکثریت اعلٰی عدالت میں مقدمات کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی۔

مسلم لیگ نون کی حکومت نے یہ قانون تشدد کو روکنے کے لیے متعارف کرایا ہے، جس نے ملک کو 2007ء سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کو بلوچستان میں بغاوت اور بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کا بھی سامنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں