یہ اصطلاح "گھر کی طرح محفوظ" زیادہ تر سازوسامان کے بجائے محفوظ سرمایہ کاری کے معنوں میں استعمال ہوتی تھی- مگر اب پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی شہروں میں یہ صورت حال نہیں رہی ہے- بھول جائیں کہ کسی زمانے میں لوگ اپنی بچائی رقم اور زیورات وغیرہ گدوں کے نیچے چھپایا کرتے تھے، اب تو زیادہ تر لوگ قیمتی دستاویزیں بھی چوریوں کے ڈر سے گھر میں رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں-

خوش قسمتی سے، حل آسان ہے: بس کسی بینک میں ایک لاکر کرایہ پر لے لیجئے- یا، کم ازکم، میرا یہی خیال تھا- پچھلے ویک اینڈ تک، جب کہ کراچی کے ایک پرائیویٹ بینک کے لاکرروم میں آٹھ گھنٹے تک لمبی نقب زنی نے پچاس سے زیادہ تجوریوں کو ہر چیز سے خالی کردیا، اور، اس سے زیادہ بری بات یہ کہ مالکان کو اس نقصان کی تلافی یا معاوضہ کی کوئی امید بھی نہیں-

یہ ایک عام طریقہ ہے کہ جو چیزیں بینک کے لاکرز میں رکھی جاتی ہیں ان کی قیمت یا تعداد کا تخمینہ لگانے کا رواج نہیں ہے، آپ جو چیز چاہیں لاکر میں رکھیں، بینک کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ( اگرچہ کہ بعد میں آپ الگ سے ان چیزوں کی قیمت کے حساب سے انشورینس خرید سکتے ہیں) اس مقصد کیلئے، لاکر میں جو چیزیں آپ نے رکھی ہیں ان کے حساب سےبینک آپ کو ایک یکساں قیمت کی انشورنس کی پیشکش کرتا ہے، جو عموماً لاکر کے سائز پر منحصر ہوتی ہے- بینک آپ کو صرف وہی رقم ادا کرے گا اگرلاکر میں رکھی ہوئی چیزیں ضائع، تباہ ہوں یا کھو جائیں- چنانچہ یہ ممکن ہے کہ وہ رقم جو بینک ادا کرے گا وہ ان چیزوں کی اصل قیمت سے مطابقت نہ رکھتی ہوں- مطلب یہ کہ بینک کی معاہدہ کے مطابق ادا کی ہوئی رقم-

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لاکر کے اندر کی چیزوں کے انشورنس کیلئے جو قوانین بنائے ہیں وہ سارے بینکوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں- مطلب یہ کہ، کہنے کیلئے کم از کم، وہ قوانین کراچی کی سولجر بازار ڈکیتی کے شکار لوگوں پر تو لاگو ہونے چاہئیں- لیکن پتہ یہ چلتا ہے، کہ اس میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں: وہ یہ کہ لاکر کی سہولت بظاہر بینک نے اپنے طور پربراہ راست لوگوں کو نہیں مہیا کی تھی بلکہ یہ سب بینک ملازمین کی ایک تنظیم کے زیر انتظام تھا، جو بینک کے تحت تھی-

اس کا مطلب، پریس کی رپورٹوں کے مطابق، پہلی بات، پولیس اس کوبینک ڈکیتی کے طورپر نہیں بلکہ ایک عام چوری کی واردات کے طور پر درج کرے گی--- جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ترجیحی اہمیت کم ہوگی- اور، دوسری بات، اسٹیٹ بینک کے انشورنس قوانین اس ڈکیتی پر لاگو نہیں ہوں گے- اور ان سب کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ جو اس ڈکیتی کا شکار ہوئے ہیں وہ اپنے حال پر چھوڑ دئے گئے ہیں-

ابھی تک، بینک اور اس تنظیم نے جو لاکرز کی ذمہ دار تھی تاّسف کے جذبات کا اظہار کیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ متاثرہلوگوں کے نقصان کی تلافی کی جائیگی؛ لیکن اس بارے میں وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ نقصانات کا تخمینہ کس طرح کریں گے- میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ لاکر کے اندر کی چیزوں کی قیمت کا تخمینہ لگانے کیلئے اس کے مالک کے الفاظ پر بھروسہ کرنا ہوگا- غالباً، جتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ اسی پر اکتفا کریں گے جو بالاخر ان کودیا جائیگا-

لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جنہوں نے اسی طرح بینکوں میں لاکرز لئے ہیں، جن میں سے ایک میں ہوں اور اپنے آپ کو بہت غیرمحفوظ سمجھتی ہوں- کیا ان لوگوں کو جب وہ لاکرز لے رہے تھے بتایا گیا تھا کہ یہ لاکرز بینک کے نہیں ہیں بلکہ ان کو چلانے والی بینک ملازمین کی ایک تنظیم ہے جو بینک کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اور یہ کہ خدا نخواستہ کسی حادثہ کی صورت میں، اس بات سے کیا فرق پڑسکتا ہے؟

اس طرح کی چیزوں کا ذکرعموماً بہت باریک لکھائی میں ہوتا ہے- اس کے علاوہ یہ لینے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل کرلے، یہ الگ بات ہے کہ یہ مخصوص سوالات میرے ذہن میں کبھی نہیں آتے- یقینی طور پر بینکنگ کے شعبہ کو ان تفصیلات کو ان کی ضرورت کے پیش نظر صحیح طریقے سے مشتہر کرنا چاہئے- دوسرے، کیا بینک اوران کے نگران ادارے کو سیکیورٹی کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے سوچنا شروع نہیں کرنا چاہئے؟

کراچی میں صرف اس سال اب تک دس بینک ڈکیتیاں ہوچکی ہیں، اورایسا لگتا ہے کہ ان کی ہمتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور یہ پیسہ دہشت گردوں کی مالی امداد سے لیکر ہر طرح کے مجرموں کی کفالت کرنے کے کام آرہا ہے-

اس بینک میں جہاں یہ لاکرز تھے، صرف ایک گارڈ موجود تھا اور سی سی ٹی وی سسٹم خراب پڑا ہوا تھا- یہاں بھی، ایک معیاری ضابطۂ کار اور کم سے کم سیکیورٹی کی ضرورت کا ایک نظام موجود ہونا لازمی ہے لیکن بہت سارے بینک اور ان کی شاخیں اس معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں- جیسا کہ مجھے بتایا گیا، ایسا کیوں ہے کہ ہم کبھی غیر ملکی بینکوں میں ڈاکے کے بارے میں نہیں سنتے ہیں؟ کیونکہ وہ ضابطۂ کار پر عمل کرتے ہیں-

بینکوں کی سیکیورٹی میں بہت سارے جھول کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جن میں نیم تربیت یافتہ اور خستہ حال اسلحہ سے لیس سیکیورٹی گارڈز، یا اندرونی ملی بھگت وغیرہ ہیں- لیکن اس کے باوجود یقیناً، بینک ڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بہت برا شگون ہے- ہم اس مسئلہ پر کسی قسم کی پیش رفت کیوں نہیں دیکھ رہے ہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی اشارہ کہ کہ ارباب اختیار میں سے کسی نے ان واقعات کا کوئی نوٹس بھی لیا ہو؟

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری۔

تبصرے (0) بند ہیں