خطرناک موڑ

ریسکیو کارکن اور رضا کار جائے وقوعہ پر بس میں پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکال رہے ہیں، اے پی فوٹو۔۔۔۔
ریسکیو کارکن اور رضا کار جائے وقوعہ پر بس میں پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکال رہے ہیں، اے پی فوٹو۔۔۔۔

ڈیرہ غازی خان میں ایک المناک حادثے کے فوراً بعد اتوار کے دن سکھر کے نزدیک ٹریفک کے ایک اور بھیانک حادثے میں 40 سے زیادہ لوگوں کی موت پورے ملک میں سڑکوں کے ابتر (Road Safety Standards) حفاظتی معیار کی طرف اشارہ کرتی ہے-

پاکستان میں 1000لوگوں کیلئے 20 کاروں کا اوسط ہے- اس حد درجہ کم اوسط کے باوجود، حادثے بہت زیادہ ہیں- 90 فیصد مسافر سڑکوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں، اس لئے سڑکوں کے حفاظتی معیار پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے-

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکومت پنجاب کو ایک (Road Safety Commission) کمیشن قائم کرنے کی ہدایت کی ہے، اس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ناکارہ گاڑیوں اور کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف سخت کارروائی کرےاور یہ شہریوں کی طرف سے ایک عرضداشت کے نتیجے میں جاری ہوا تھا-

محفوظ سڑکوں (Road Safety) سے جڑے ہوئے جتنے مختلف عناصر ہیں ان سب کو اس تشویشناک صورت حال کا احساس ہونا چاہئے، مشینی اور بنیادی ڈھانچہ، دونوں لحاظ سے محفوظ سڑکوں کا مسئلہ انسانوں سے جڑا ہوا ہے، اور ان میں سے صرف ایک کو درست کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہونگے-

گاڑیوں کے درست ہونے کی ضرورت کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے- گاڑیوں کی معیاری کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنے والے (MVEs) شفاف طریقے سے کام نہیں کرتے- یہ امر لازمی ہونا چاہئے کہ (PSVs) پبلک سروس میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی صحیح طریقے سے جانچ کی جائے- انسانی ہاتھوں سے جانچ کی بجائے آجکل کے جدید آلات پر انحصار کرنا چاہئے- یہ کام اچھی شہرت کی حامل آٹوموبائل کمپنیوں کے ذریعے ہوسکتا ہے- لائسنس جاری کرنے کا کام بھی، شفافیت چاہتا ہے، اسکا معیار برقرار رکھنے کیلئے اس کو (NADRA) نادرا سے وابستہ کردینا چاہئے- ایک نیشنل لائیسنسنگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام مناسب ہوگا-

ایمرجنسی کی صورت میں انخلا کے راستے کی عدم موجودگی اوربسوں کے بنانے میں لوہے کے سریوں کا اور T-Irons کا زیادہ استعمال ایمرجنسی اخراج کی صورت میں دشواری پیدا کرتا ہے- بسوں کو بنانے کا کام بھی ایک نظام کے تحت ہونا چاہئے جس میں معیاری حفاظتی نکتۂ نظر(Safety Standards) کو پیش نظر رکھا جائے-- 1969 کے موٹروہیکل قوانین کا سیکشن 203- چیپٹر VI کے مطابق (PSV) پبلک سروس گاڑیوں کے لئے آگ بجھانے والا آلہ رکھنا ضروری ہے لیکن زیادہ ترگاڑیوں میں نہیں ہوتا ہے-

حادثے کے بعد، جان بچانے والی ٹیم کا کردار بےحد اہم ہوتا ہے- سوائے موٹر وے پولیس اور ریسکیو 1122 سروس کے، صوبائی پولیس کے دستوں کے پاس Hydraulic Cutters، کرین مشینیں، سرچ لائٹیں یا ایمبولینس گاڑیاں نہیں ہیں- اس کے علاوہ قومی شاہراہوں پر(Trauma Centre) وغیرہ کے نہ ہونے سے جان بچانے کا کام بہت مشکل ہوجاتا ہے- Instant Life-Saving Intervention کی مدد سے ایک گھنٹہ کے اندر انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں- لیکن عموماً، ایک عام قسم کے نزدیک ترین کلینک یا ہسپتال پہنچنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ لگتا ہے-

پاکستان میں، ٹریفک پولیس دراصل پولیس فورس کا ایک ناپسندیدہ حصہ ہے- 1997 میں موٹروے پولیس کا قیام ایک صحیح قدم تھا-

پاکستان پولیس سروس کا یہ واحد شعبہ ہے جسے اقوام متحدہ اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے- اس کا شمار نہ صرف ایک بے حد مستعد بلکہ بدعنوانی سے پاک پولیس ادارہ میں کیا جاتا ہے- اسلام آباد ٹریفک پولیس اور پنجاب ٹریفک وارڈن نے اس کے نمونے پر عمل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان اداروں کو ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے- زیرو برداشت کا رویہ اپناتے ہوئے، موٹروے پولیس ہرشخص پر قانون کا یکساں استعمال کر نے پر یقین رکھتی ہے انہوں نے پولیس کا کام کرنے میں سختی سے زیادہ نرمی کا رویہ اپنایا ہے- اس ادارہ کا واحد مشن جرمانہ اکٹھا کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے نفاذ سے پہلے سماج کو قانون کے بارے میں جانکاری دینا ہے-

ٹریفک حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد کا صحیح تعین مشکل ہے- اس کے علاوہ، حادثوں کی اکثریت جن میں اموات نہیں ہوتی ہیں ان کی رپورٹ بھی درج نہیں ہوتی ہے- شماریات کے ادارے کے مطابق11- 2010، میں 4280 حادثات ہوئے تھے جن میں 5271 ہلاکتیں ہوئی تھیں- کراچی کے ایدھی سنٹر کے مطابق 2013ء کے دوران حادثوں میں 644 افراد ہلاک ہوئے- انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ، گاڑی چلانے والوں کو ہر سال 100 ملین روپیوں کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے-

2013ء کی ایک روڈ سیفٹی کی عالمی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 41 فیصد حادثات کے شکار پیدل چلنے والے تھے- تاہم پیدل چلنے والوں کے تحفظ کا معاملہ آج بھی ایک گم شدہ کڑی کی مانند ہے- زمین دوزراستوں کی تعمیر، اوپر سے گذرنے والے پل، سڑکوں پر روشنی اوران پر لگائی جانے والی تنصیبات، یہ تمام چیزیں محفوظ سڑکوں کے منصوبے کا ایک جزولازم ہوتی ہیں-

\سوائے موٹرویز، ہائی ویز اور اسلام آباد کی سڑکوں کے گاڑیوں میں سیٹ بلٹ لگانے کا رواج پورے ملک میں کہیں نہیں ہے- پچھلی سیٹ پربیٹھنے والے کیلئے سیٹ بلٹ نہ لگانا ایک عام بات ہے-

بھاری اورسامان سے بھرے ہوئے ٹرک نہ صرف سڑکوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ سڑک پر(Safety Hazard) حفاظتی خطرہ کے طور پر ہیں- 90 فیصد کیسوں میں، تجارتی گاڑیاں اجازت سے زیادہ وزن اٹھاتی ہیں- دو ایکسل ولے ٹرک جو ان کا تقریباً ستر فیصد ہیں، سڑک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں-

پاکستان میں ڈرائیونگ کی تربیت کی سہولتوں کی کمی ہے، حالانکہ نیشنل ہائی وے سیفٹی آرڈیننس 2000 تربیتی اسکولوں کے قیام کی سفارش کرتا ہے جو نجی انتظامیہ کے تحت حکومتی نگرانی میں کام کریں-

ایک نیشنل روڈ سیفٹی پلان کے منصوبہ کی تیاری اور اس کا نفاذ تو ناگزیر ہے- اس سلسلے میں حکومت کو ایک سرکاری اعلامیہ کے ذریعہ نیشنل روڈ سیفٹی کونسل، صوبائی کونسلیں اور ڈسٹرکٹ کمیٹیاں قائم کرنا چاہئے جو اس منصوبہ کے نفاذ کی نگرانی کرے-سڑک کا حفاظتی نظام (Road Safety) اسکول کے نصاب کا بھی حصہ ہونا چاہئے-

اس کے بعد، جو جگہیں خطرے والی ہوں، ان کا پتہ لگانے کیلئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی، موٹروے پولیس اورصوبائی ہائی وے کے افسران ایک متحدہ لائحۂ عمل مرتب کریں- کیونکہ ان جگہوں پر جہاں اکثر حادثات ہوتے ہیں احتیاطی اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے-

انگلش میں پڑھیں

 ترجمہ ۔   علی مظفر جعفری ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں