اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک اصلاحاتی پروگرام کے حصہ کے طور پر ریٹائیرمنٹ کی عمر میں اضافہ اور پینشن بل پر کنٹرول کرے۔

تنخواہوں اور پینشن کی مد میں پاکستان کے وفاقی اخراجات کا تخمینہ تقریباً 450 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس میں سے صرف پینشن کے اخراجات موجودہ مالی سال کے دوران تقریباً 171 ارب روپےہیں۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومتوں کے تنخواہوں اور پینشنوں کے بلز وفاقی حکومت کے بل سے کہیں زیادہ ہیں۔

سرکاری اخراجات کے اصلاحی پروگرام کے حصے کے طور پر آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے کہ ریٹائیرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جاے، اس لیے کہ زندگی کی شرح میں بہتری کی وجہ سے پینشن بل میں اضافہ ہورہا ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس پینشن بل میں کمی لانے کے لیے یہی ایک راستہ ہے، جس کے ذریعے سینئر بیوروکریٹس کی مہارت کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سینئر بیوروکریسی کی جانب سے بھی ریٹائیرمنٹ کی عمر کو ساٹھ سال سے بڑھا کر باسٹھ سال تک لے جانے کی تجاویز پیش کی جاچکی ہے، لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس طرح کی تجاویز کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی، جس کا سیاسی محرک بنیادی طور پر نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار فراہم کرنا تھا۔

اس سال وفاقی حکومت کا پینشن کا بل تقریباً 171 ارب روپے ہے، جس میں سے 125 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائیرڈ ورک فورس کا حصہ ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ’’سرکاری تنخواہوں کے بل کے ڈھانچے میں اصلاحات کرنے کے لیے پیداوار اور ادائیگی کے ساتھ منسلک کرنا چاہیٔے، خدمات کے حصول کے عمل کو بہتر بنانا چاہیٔے اور بالآخر عوامی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے کارکردگی میں اضافہ کیا جانا چاہیٔے۔ ‘‘

اس کے علاوہ مزید یہ بھی کہا گیا کہ دیگر شعبوں خصوصاً مزدوروں کی صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ہم آہنگی کے ساتھ اصلاحات کی جانی چاہیٔے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ تمام مقاصد ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ نتخواہوں کے بل میں اضافہ کو خدمات کی فراہمی اور مالیاتی وسعت میں اضافے کے مطابق ہونا چاہیٔے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا مشورہ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے، جب حکومت خود بھی اگلے بجٹ میں تنخواہوں اور پینشنوں میں اضافے سے ہچکچا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے اس میں سوفیصد سے زیادہ کا اضافہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت پر اپنے ملازمین کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کا دباؤ بھی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی نے بجٹ کی تیاری میں مشاورت کے سلسلے میں اختتامِ ہفتہ پر وفاقی حکومت کو اپنے ابتدائی خیالات پیش کیے تھے، جس میں رپورٹ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران تنخواہوں میں 120 فیصد تک اضافہ کرچکی ہے، جس سے حکومتی کارکردگی میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔

تنخواہوں میں اس اضافے کی وجہ سے انتظامی اخراجات ساٹھ فیصد سے بڑھ کر 88 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں