اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں اور خیبر پختونخوا کے بعض حصوں میں افغان موبائل فون کمپنیوں کے آپریشن کو محدودکردے۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چالیس ہزار سے زیادہ کی تعداد میں افغان موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کی سمیں پاکستان کے علاقوں میں کام کررہی ہیں اور انٹرنیشنل رومنگ سروسز کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعے فون کال کی جارہی ہے اور وصول کی جارہی ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپریل میں سینیٹ کو آگاہ کیا تھا کہ ’’پی ٹی اے کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ ایسے آپریشنز کو محدود کردے۔‘‘

انہوں نے تصدیق کی تھی کہ افغان موبائل فون کمپنیوں کی سمیں پاکستان کے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں، اور شبہ ہے کہ سنگین جرائم میں ان کا استعمال کیا جارہا ہے، مثلاً بھتہ وصولی کی دھمکیوں کے لیے، غیرقانونی وی او آئی پی (وائس اور انٹرنیٹ پروٹوکول) کی سرگرمیوں میں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی جانب سے کمیونیکیشن کے لیے ان کا استعمال ہورہا ہے۔

چوہدری نثار نے بتایا تھا کہ ’’دسمبر 2013ء کے دوران پشاور میں ایف آئی اے نے ایک چھاپے کے دوران گرے ٹریفکنگ کے غیرقانونی دھندے میں ملؤث افراد سے لگ بھگ سترہ ہزار افغان سمیں برآمد کی تھیں۔‘‘

وزیرِ داخلہ نے وضاحت کی کہ ضبط کی جانے والی سموں کا تعلق ایم ٹی جی (ملٹی نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن گروپ) اور روشن سیلولر نیٹ ورک سے تھا، جن کا یوفون اور زونگ کے ساتھ رومنگ کی سہولت کا معاہدہ ہے۔

ڈان کے علم یہ بات آئی ہے کہ افغان سموں کا استعمال پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے بہت سے کیسز میں کیا جارہا ہے۔

مثال کے طور پر ایک کیس میں اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ایک وزیر کو دھمکی آمیز کال موصول ہوئی تھی، تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں افغان سم استعمال کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق اس سال کی ابتداء میں صوبائی حکومت نے بھی وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ افغان سموں کے لیے رومنگ سروسز کو معطل کر دیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے کچھ اداروں نے بھی اس اقدام کی حمایت کی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں افغان سیلولر موبائل آپریٹرز کو رومنگ کی سہولت فراہم کیے جانے کے حوالے سے نیب نے پی ٹی اے کو معلومات کے حصول کے لیے اس سال جنوری میں ایک درخواست ارسال کی تھی، جس کے جواب میں پی ٹی اے نے اس سے انکار کردیا تھا۔

پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ ’’سیلولر موبائل آپریٹرز کو بین الاقوامی رومنگ کے معاہدوں کے لیے پی ٹی اے سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں، رومنگ ایک ویلیو ایڈڈ سروس ہے لازمی نہیں۔‘‘

نیب نے موبائل آپریٹرز اور ان کی انٹرنیشنل رومنگ سروسز کے بارے میں معلومات پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ایک مقدمے کے سلسلے میں طلب کی تھیں۔

پی ٹی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پی ٹی اے نے نیب سے یہ کہتے ہوئے معلومات کی فراہمی سے انکار کردیا تھا کہ ’’نیب کے اس مقدمے میں بطور ایک نیم عدالتی فورم کے ہم ایک انوسٹی گیشن ایجنسی کے تمام مطالبات کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔‘‘

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ نیب کو بھی مطلع کردیا گیا تھا کہ انٹرنیشنل رومنگ کو ریگولیٹ نہیں کیا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ میں پچھلے سال اکتوبر میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک پٹیشن پر ایک مقدمہ شروع کیا گیا تھا۔

اس پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغان موبائل فون کمپنیوں کی سمیں لاکھوں کی تعداد میں خیبر پختونخوا میں استعمال کی جارہی ہیں، اور ان میں سے بہت سی سموں کا استعمال بم دھماکے کرنے میں کیا جاتا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کو ہدایت کی تھی کہ پندرہ دن کے اندر افغان سموں کو بلاک کردیا جائے اور اس بات کی تفتیش کی جائے کہ ان کا استعمال غیرقانونی سرگرمیوں میں تو نہیں کیا جارہا ہے۔

اسی طرح کے ایک حکم میں پشاور ہائی کورٹ نے تمام موبائل آپریٹرز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ ان کے عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے جاری کیے تھے۔ ان موبائل آپریٹرز نے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، جس نے اس حکم کو معطل کردیا تھا۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس حکم سے پی ٹی اے سے کی گئی نیب کی درخواستوں پر بھی پانی پھر گیا تھا، اس لیے کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے تحت کی گئی تھیں۔

نیب کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ قومی احتساب آرڈیننس کےسیکشن 19 کے تحت نیب کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایک انکوائری اور انوسٹی گیشن کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں