آر ایس ایس، بی جے پی اور مودی

نریندرا مودی, فائل فوٹو۔۔۔۔
نریندرا مودی, فائل فوٹو۔۔۔۔

نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے نامزدگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جہاں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی اپنے سیاسی فرنٹ (بی جے پی) پر گرفت مظبوط ہوئی ہے وہیں مودی نے خود اعتمادی کی تمام حدوں کو پار کر لیا ہے جہاں بی جی پی کے کسی لیڈر نے جانے کی ہمت نہیں کی- اس رسہ کشی سے ہندوستان کا سیاسی نظام متاثر ہو گا-

اپنی مرضی کا حلقہ انتخاب مقرر کر کے مودی نے تمام سینئر لیڈروں کو ان کی جگہ بتا دی ہے- چناؤ کے دوران خود کے دیے گئے کاموں کے لئے مودی نے اپنے چنے ہوئے لوگوں کو بھیجا-

پارٹی مشین اس معاملے میں زیادہ کچھ نہ کر سکی- ان کے خاص دست راست، امیت شاہ کو یو پی جانے کیلئے چنا گیا- پھر جلد ہی انہوں نے ہندو ووٹروں سے مظفر گڑھ کے فسادات کا بدلہ لینے کیلئے بی جے پی کو ووٹ دینے کیلئے کہا-

دو دیگر معتمدوں نے بھی ضبط کا دامن چھوڑنے کے لئے اسی مخصوص دن یعنی انیس اپریل کو چنا- گجرات میں، وشوا ہندو پریشد کے صدر، پراوین ٹوگاڈیا نے ہندو علاقوں میں جائیداد خریدنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنایا- ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلمانوں نے اڑتالیس گھنٹوں میں جگہ خالی نہ کی تو "ان کے پاس، پتھروں، ٹائروں اور ٹماٹروں کے ساتھ ان کے دفتر جانے میں کچھ غلط نہیں ہو گا"-

اسی روز بہار میں بی جے پی لیڈر، گریراج سنگھ نے کہا "جو مودی کو روکنا چاہتے ہیں انکے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں --- کیونکہ انکی جگہ پاکستان میں ہو گی"-

یہ کوئی اتفاق نہ تھا- یو پی اور بہار مودی کی کامیابی کو بنا اور بگاڑیں گے- مودی وہاں پر ہندو ووٹوں کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں-

اگر وہ جیت گئے تو وہ کس قسم کے پرائم منسٹر بن کر ابھریں گے؟ گجرات میں انہوں نے کیبنٹ حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا- کیا وہ بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر نئی دہلی میں بھی ایسا ہی کریں گے؟ اہم سوال یہ ہے کہ آیا آر ایس ایس ان کے منصوبوں کو مانے گی؟ 1998 میں، اس نے کامیابی کے ساتھ اٹل بہاری واجپئی کی جانب سے جسونت سنگھ کو وزیر خزانہ بنانے کے لئے کی تجویز کو ناکام بنایا تھا- سیدھی بات یہ ہے کہ مودی اور آر ایس ایس کی بنیادی اکویشن (EQUATION) کیا رہتی ہے؟

آر ایس ایس 1925میں قائم کی گئی تھی- جان سنگھ کا قیام آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے سابق چیف، شیاما پرساد مکھرجی کے آپسی معاہدے کے تحت 21 اکتوبر، 1951 کو قائم کیا گیا- تاہم انہوں نے ذاتی طور پر 3 اپریل، 1948 کو وہ آئینی ترمیم پیش کی تھی جس میں فرقہ ورانہ تنظیموں پر پابندی پر زور دیا گیا-

مہا سبھا نے غیر ہندوؤں کے اس اخراج کو ختم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے وہ آر ایس ایس کے ساتھ ایک سودا کیا- انہوں نے ایک بظاہر غیر فرقہ پارٹی قائم کریں گے جسے چلانے کیلئے آر ایس ایسں کارکن فراہم کرے گا- زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ آر ایس ایس نے اپنی شرائط منوانا شروع کر دیں-

جان سنگھ کو جنتا پارٹی کے ساتھ ضم کرنے کے لئے 1977 میں تحلیل کر دیا گیا، جس نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ چناؤ میں اندرا گاندھی کو شکست دی تھی-

اس کے ٹوٹنے کی وجہ اس کے اتحادیوں کا مطالبہ تھا کہ وہ حقیقت میں آر ایس ایس کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کرے- بھارتیہ جنتا پارٹی کا قیام 5 اپریل، 1980 کو قائم کی گئی- ایل کے ایڈوانی اس کے "ہندو پارٹی" کا دعویٰ کرنے میں کبھی نہیں ہچکچائے-

آر ایس ایس نے بی جے پی کے تین صدور کو اب تک اپنے عہدوں سے ہٹایا ہے- 1954 میں مولی چندر شرما، 1973 میں بلراج مدہوک اور 2005 میں ایل کے ایڈوانی-

وقت نے والٹر اینڈرسن اور شریدهر داملی کے 30 سال پہلے 'برادرہڈ ان زعفران' میں لکھے کو صحیح ثابت کیا ہے- "؛بی جے پی ا[نی طرف سے ایک قومی سیاسی طاقت بننے کی کوشش کرے گی تاہم اس پر سوالیہ نشان ہے کہ آیا وہ ایسا ان طاقتوں کی موجودگی میں کر پائے گی جو کہ آر ایس ایس سے آئی ہیں- خود پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں، یہ طاقتیں ان کرشماتی سیاسی شخصیات کے ساتھ طاقت شئیر کرنے میں ہچکچاتی ہیں جن کا پس منظر آر ایس ایس سے نہیں اور جو عوام کو موبیلائز کر سکتے ہیں- آر ایس ایس کے نظریات اس بات کو خاصی حد تک ناممکن بنا دیتے ہیں کہ آیا اس میں سے کبھی کوئی سیاسی کرشماتی شخصیت نکل کر آ سکے- دوسری جانب اس بات پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ بی جے پی کیا آر ایس ایس کی ان طاقتوں کے بنا سیاسی طور پر کھڑی بھی رہ سکتی اور یہ طاقتیں یا کارکن اسی صورت اس کے ساتھ رہیں گے جب کہ پیتی کی قیادت پر "برادرہڈ" کی گرفت مظبوط رہے"-

دونوں ہی رجحانات دیکھے گئے- واجپائی جیسے چند نے اسے ایک دائیں بازو کی سیکولر جماعت کے طور پر ابھارنے کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایک انسانی چہرہ دینے کی کوشش کی- وہ ناکام رہے کیونکہ آر ایس ایس کے لئے یہ قابل قبول نہ تھا- لیکن پھر بی جے پی کی اپنی بقاء بھی انہیں طاقتوں کے دم پر ہے جنھیں آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے-

چناؤ کے دوران تو خاص طور پر یہ طاقتیں اور آر ایس ایس کے وسائل ناگزیر بن جاتے ہیں- چار وجوہات ہیں جن کی بنا پر مودی کو کچھ حدود کو قبول کرنا پڑے گا- بی جے پی کا وہ طبقہ جسے انہوں نے کونے پر کر دیا ہے اپنے آپ کو دوبارہ جمانے کو کوشش کرے گا؛ وہ کوئی اندرا گاندھی نہیں کہ اپنی پارٹی کے قیادت ہی کو ختم کر دیں؛ ہر جمہوریت میں عوامی رائے انسان کو طاقت کی حدود میں رکھتی ہے؛ اور آخر میں خود مودی کی منقسم شخصیت-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ممبئی میں رہتے ہیں اور لکھاری کے علاوہ وکیل بھی ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں