ٹی ٹی پی کے اندر گروہ بندی۔ تاجروں کی مصیبت

اپ ڈیٹ 03 مئ 2014
ٹی ٹی پی کے ایک گروہ کو بھتے کے طور پر بھاری رقم ادا کرنے کے بعد دارالحکومت کے تاجر وں سے دوسراگروہ بھتہ طلب کررہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی
ٹی ٹی پی کے ایک گروہ کو بھتے کے طور پر بھاری رقم ادا کرنے کے بعد دارالحکومت کے تاجر وں سے دوسراگروہ بھتہ طلب کررہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اندر ہونے والی حالیہ گروہ بندیوں سے حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو تو عسکریت پسندوں کے ساتھ سودے بازی میں مدد مل سکتی ہے، لیکن اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہریوں کے تاجروں کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہے۔

پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک تاجر ٹی ٹی پی کو بھتے کی ادائیگی کی تھی، لیکن چند ہی دنوں کے بعد انہیں دوبارہ مزید رقم کی ادائیگی کے لیے فون کالیں موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری مرتبہ رقم کے مطالبے کے لیے فون کالیں موصول ہوئی ہیں، حالانکہ عسکریت پسندوں کے دلالوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ تاجروں کو دھمکایا نہیں جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے گروپس شہریار محسود اور خان سعید عرف سجنا کے تحت کام کررہے ہیں۔

حکیم اللہ محسود کی جانشینی کے معاملے پر ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے، جو پچھلے سال امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

نومبر 2013ء میں شہریار محسود کو عبوری مدت کے لیے ٹی ٹی پی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

تاہم ٹی ٹی پی اندر گروپس کی مخالفت کی وجہ سے انہیں مستقل سربراہ نہیں بنایا جاسکا تھا۔ اسی طرح سجنا کو بھی حکیم اللہ محسود کے جانشین کے طور پر منتخب کیا گیا تھا، لیکن بعد میں مختلف گروپس کے کمانڈروں کی جانب سے انہیں مسترد کردیا گیا۔

بعد میں ٹی ٹی پی کے سربراہ کے طور پر سوات کے ملّا فضل اللہ کے انتخاب کا شمالی وزیرستان میں حکیم اللہ محسود کے پیروکاروں نے خیرمقدم نہیں کیا تھا۔

پچھلے مہینے ان دونوں گروپس نے ایک دوسرے پر حملے کیے تھے، جس میں بیس سے زیادہ عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

کیپیٹل پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اب ٹی ٹی پی کے گروپس بھتے کی وصولی کے لیے تاجروں سے علیحدہ علیحدہ رابطہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ شہر میں ایک فوڈ آؤٹ لیٹ کے مالک کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی، جس پر اتنی ہی رقم کا مطالبہ کیا گیا جو وہ پہلے ہی ادا کرچکے تھے۔

مذکورہ تاجر نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے ٹی ٹی پی کے دلال سے رابطہ کیاجو دارالحکومت میں ٹی ٹی پی کے لیے کام کرتا ہے، اس لیےکہ اس نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ اس رقم کی ادائیگی کے بعد انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

لیکن جب مذکورہ تاجر نے ٹی پی پی کے دلال کو اس فون کال کے بارے میں بتایا کہ بھتے کی ادائیگی کے بعد بھی موصول ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات میں وقت لگ جائے گا۔

روالپنڈی میں ایک پولیس آفیسر نے تصدیق کی کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ کاروباری حضرات کو جو اس شہر میں ٹرانسپورٹ کا بزنس کرتےہیں، کو بھی ٹی ٹی پی کی جانب سے فون پر بھتہ طلب کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’ان کا کہنا ہے کہ وہ اتنی ہی رقم پہلے ہی ان کے حریف گروپ کو ادا کرچکے تھے، جو اب طلب کی گئی تھی۔‘‘

اس کے علاوہ کیپیٹل پولیس آفیسر نے مزید بتایا کہ افغانستان کے صوبے کنڑ میں طالبان کے ایک گروپ نے بھی سبزی منڈی کے تاجروں سے بھتے کا مطالبہ کیا تھا۔

چند دن پہلے اس گروپ نے ایک تاجر جو ایک سابق وزیراعظم کے قریبی ساتھی ہیں، کو کال کرکے بیس کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔

مذکورہ آفیسر کا کہنا ہے کہ ا ن کے انکار کرنے کے بعد اس گروپ کی جانب سے انہیں ایک کفن بھیجا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ تاجر کو موصول ہونے والی فون کالز افغانستان، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں سے کی گئی تھیں۔

تاہم ان فون نمبروں کو ٹریک کیے جانے بعد ظاہر ہوا کہ یہ فون کالز سبزی منڈی سے کی گئی تھیں، جہاں بھتہ خوروں نے ایک پی سی او قائم کر رکھا تھا، جہاں سے وہ یہ کالز کرتے تھے۔

آفیسر نے کہا کہ اس گروپ کے کچھ اراکین کو گرفتار کرکے عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں