ملک میں ممنوعہ ہتھیاروں کا سیلاب

اپ ڈیٹ 05 مئ 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

راولپنڈی: ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ اسلحہ و گولہ بارود کی درآمدی پالیسی میں ایک سال قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کی منظور کردہ تبدیلیوں کے عدم نفاذ کی وجہ سے ملک میں ممنوعہ ہتھیاروں کا ایک سیلاب سا آگیا ہے۔

ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات سے فکرمند تھے کہ 2006-07 میں متعارف کرائی جانے والی موجودہ پالیسی کو جوڑ توڑ کے ذریعے اسلحے کے درآمد کنندگان چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار ملک میں لارہے ہیں اور مارکیٹ کررہے ہیں۔

اس پالیسی نے اسلحہ کے تجارتی درآمد کنندگان پر ایک لاکھ سے لے کر دو کروڑ روپے کی رقم کی حد مقرر کی ہے۔

اپنی درآمدات کی رسیدوں کے تحت ملک میں 520 اسلحے کے ڈیلرز چالاکی کے ساتھ مزید ہتھیاروں کی مقدار لائے، جو اس رقم کے کوٹے سے زیادہ تھی جس کوٹے کی انہیں بین الاقوامی اسلحہ مارکیٹ سے خریداری کی اجازت دی گئی ہے۔

سیکیورٹی اور کمرشل اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کے مطابق اسلحے کے تاجر اپنی اسلحے کی کھیپ کو مختلف بندرگاہوں پر اترواتے ہیں، تاکہ ان کی بہت بڑی کھیپ کو بھی کسٹم ان کی رقم کے کوٹے کا موازنہ کیے بغیر منظوری دیدے۔

پیپلزپارٹی کی سبکدوش ہونے والی حکومت نے 7 مارچ 2013ء کو اپنی کابینہ کے آخری اجلاس میں اس پالیسی میں ترامیم کی منظوری دی تھی۔ اس کو قیمت کی بنیاد پر درآمدات کو مقدار کی بنیاد پر درآمدات میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

تاہم بڑھتی ہوئی دہشتناک صورتحال اور ریونیو کے نقصان پر وزارتِ داخلہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے تشویش کے اظہار کے باوجود، پیپلزپارٹی کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ نون کی حکومت نے ان تبدیلیوں کو جامع صورت دے کر ان کا نفاذ نہیں کیا۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید سے جب اس پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہ وہ متعلقہ محکموں سے مشورے کے بعد ہی اس پر تبصرہ کر سکیں گے۔

اس سال کی ابتداء میں پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل نے باضابطہ طور پر صوبے کے ڈویژنل پولیس کے سربراہان کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی اسلحے اور گولے بارود کی اسمگلنگ پر کڑی نظر رکھیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس خان بیگ ضلعی حکام کے تعاون کے ساتھ اس لعنت کو روکنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دینا چاہتے تھے تاکہ ایسے اسلحے کے تاجر جو اسلحے کی اسمگلنگ میں ملؤث ہوں اور ان کے خلاف شکایت موصول ہوئی تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں