حکومت کا فوج کے ساتھ جاری مسائل پر بات کرنے سے گریز

06 مئ 2014
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار قومی اسمبلی میں بحث کے آغاز سے پہلے چلے گئے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف موجود نہیں تھے۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار قومی اسمبلی میں بحث کے آغاز سے پہلے چلے گئے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف موجود نہیں تھے۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: ایسا لگتا ہے کہ حکومت فوج کے ساتھ اپنے مسائل پر بات کرنے سے گریز کی کوشش کررہی ہے۔ جیسا کہ قومی اسمبلی میں ایک وزیر نے اس سے غیر معمولی انداز میں لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اس کو مسترد کردیا۔

حزبِ اختلاف کے اندرونی اختلافات نے بظاہر حکمران جماعت مسلم لیگ نون کو اس احتجاج پر قابو پانے میں مدد دی، اور اس نے امن و امان کی صورتحال پر بحث کی دعوت دے کر کچھ چنگاریاں اپنے دامن میں لے لیں۔ حزبِ اختلاف کے اراکین کی مختلف تحاریک التواء پس پشت ڈال دی گئیں، جو علیحدہ علیحدہ بحث کی طلبگار تھیں، ان میں حکومت اور فوج کے تعلقات کے حوالے سے بھی تھی۔

ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے وفاقی وزیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائیرڈ عبدالقادر بلوچ نے واضح کیا کہ جمہوریت کو فوج سے یا اس کے موجودہ چیف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے اردو زبان میں کیے گئے تبصرے میں کہا کہ ’’فوج کی کمان اس وقت ہر اعتبار سے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل، قابل اور غیر سیاسی چیف کے ہاتھوں میں ہے، اور جمہوریت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘

اب تک ایوان میں وزیراعظم نواز شریف کی گیارہ مہینے پرانی حکومت کو فوج سے لاحق خطرے کے بارے میں کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی اور وفاقی وزیر نے حزب اختلاف کی جانب سے چند تقاریر جو کسی حد تک خاموش تھیں، کے جواب میں یہ بیان دیا، جس سے یہ سوالات کھڑے ہوگئے کہ اس فورم پر انہیں اس طرح بے پروا انداز میں یہ بات کرنی چاہیٔے تھی۔

اتوار کو گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کی پہلی سالگرہ کے موقع پر مبینہ دھاندلی کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ احتجاج کا ایک واضح حوالہ دیتے ہوئے عبدالقادر بلوچ نے کہا ’’فوج جمہوریت کو رخصت کرنے کے عمل کا حصہ کبھی نہیں بنے گی،اور نہ ہی وہ عوام کی امنگوں کے ساتھ کوئی کھلواڑ کرے گی۔‘‘

وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان جو وزیراعظم کی کابینہ میں سب سے زیادہ سینئر رکن ہیں، امن و امان پر بحث کے آغاز سے پہلے ہی ایوان سے چلے گئے، اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف بھی فوج سے متعلق معاملات پر بات کرنے کے لیے موجود نہیں تھے، جبکہ ان دونوں سے کم درجے کے عبدالقادر بلوچ کو اس معاملے پر بات کرنی پڑی، جس سے یوں لگا کہ حکومت کی نظر میں اس انتہائی اہم معاملے کی جو لوگوں کے ذہن میں تحریک پیدا کررہا ہے، زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

چوہدری نثار کی اس موضوع پر بات نہ کرنے کی واضح کوشش سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں چاہے عبدالقادر بلوچ نے اپنے الفاظ کے انتخاب کے ذریعے حکمران جماعت کے بالائی حلقوں کے حق میں بات کی تھی۔

حزبِ اختلاف کی تحاریک التواء کو مسترد کیے جانے پر ابتدائی احتجاج، حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کے اس معاملے پر زیادہ زور نہ دینے کے بعد بے اثر ثابت ہوا، سوائے دوسری اہم جماعت پی ٹی آئی اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ہی اس مسئلے پر ایوان میں ہلچل پیدا کرتے رہے۔

شیخ رشیدنے حکومت پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ قوم کو دھوکے میں متبلا رکھنا چاہتی ہے اور مطالبہ کیا کہ یہ ایوان ایک قرارداد پاس کرے جس میں قومی سلامتی کے ایک اہم ادارے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے، جس سے حکمران جماعت میں سے ان کے کچھ حریف ارکان آوازیں کسیں۔

شیخ رشید دراصل آئی ایس آئی کے حوالے سے بات کررہے تھے، جن کا نام ملک کے ایک بڑی ٹی وی چینل کی جانب سے اس کے اینکر پر حملے کے بعد لیا گیا تھا۔

تحریک انصاف اور حکومت کے دیگر ناقدین نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے آئی ایس آئی کے خلاف معاملے کو ایک طرف رکھ دیا ہے، جس سے حکومت اور فوج کے تعلقات کے حوالے سے شک و شبہات پیدا ہورہے ہیں، یہ معاملہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔

جبکہ عبدالقادر بلوچ نے ایوان کو یقین دلایا کہ حکومت حامد میر پر حملے کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی، لیکن انہوں نے آئی ایس آئی کا نام لینے پر ٹیلیویژن چینل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس سے مشرف کے مقدمے کے حوالے سے شبہات کو ہوا ملی ہے۔

اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور ان کے اراکین میں سے ایک رکن عبدالرشید گوڈل کے سوا کوئی واپس نہیں آیا، انہوں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کراچی میں جاری جرائم کے خلاف کارروائی میں اپنی پارٹی کے کارکنوں کی مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے کےخلاف احتجاج کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں