کابل: عالمی خبررساں ادارے رائٹرز نے افغان حکام کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ آج صبح ایران کی سرحد کے قریب مغربی افغانستان کے مرکزی شہر ہرات میں چار بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح باغیوں نے ہندوستانی قونصل خانے پر حملہ کردیا۔

تفصیلات کے مطابق سیکیورٹی فورسز اورمسلح افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں سے جاری ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

ہرات پولیس کے چیف جنرل سمیع اللہ قطرہ نے رائٹرز کو بتایا کہ کم از کم ایک خودکش بمبار پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہے، جبکہ تین اب بھی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کا مقابلہ کررہے ہیں۔

سمیع اللہ قطرہ کا کہنا ہے کہ چار طالبان نے قونصلیٹ کے قریب رہائشی مکانات میں داخل ہوکر ہندوستانی قونصلیٹ کے کمپاؤنڈ کی طرف فائرنگ شروع کردی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے پہلے ہی لوگوں کو ان گھروں سے نکال لیا تھا، اور اب باغیوں کے ساتھ لڑائی جاری ہے۔

قونصل خانے پر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے اور افغان آرمی بھی دہشت گردوں کے خلاف اس کارروائی میں حصہ لے رہی ہے۔ تاہم اس حملے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں ہے۔

دوسری جانب ہندوستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قونصل خانے کے عملے کے تمام ارکان محفوظ ہیں۔

کابل سے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر ہرات میں ہندوستانی قونصل خانے پر اچانک آج صبح کچھ دہشت گردوں نے نے فائرنگ شروع کر دی۔

حملے کے فوراً بعد ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید اكبر الدين نے اس حملے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ عملے کے تمام لوگ محفوظ ہیں۔

پشاور میں مقیم افغان امور کے ماہر رحیم اللہ يوسف زئی نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہرات میں طالبان کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔ شہروں میں ان کا اثر بڑھ گیا ہے، اس لیے ان کے لئے ایسی کارروائیاں ان کے لیے آسان ہوگئی ہیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے توقع ظاہر کی کہ شاید اس حملے کی ذمہ داری کوئی نہ بھی قبول نہ کرے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں ہندوستانی سفارتخانے پر حملے کی یہ پہلی واردات نہیں ہے۔ اس سے پہلے جولائی 2008ء کےد وران کابل میں قائم ہندوستانی سفارتخانے کے باہر بم دھماکے میں کم سے کم اکتالیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جبکہ اس خود کش حملے میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد زخمی ہو گئے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Iqbal Jehangir May 23, 2014 02:40pm
سفارت خانوں اور سفارتی مشنوں پر حملے اسلامی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسی قبیح برائیوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں. دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا بزور طاقت مسلط کرنا چاہتے ہیں. بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعے معصوم و بے گناہ انسانوں کو خاک و خون میں نہلانے والے سفاک دہشت گرد ملک و قوم کے کھلے دشمن ہے اور افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے . بم دہماکے کرنا،خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا دہشتگردی ہے ،جہاد نہ ہے.جہاد تو اللہ کی راہ میں ،اللہ تعالی کی خشنودی کے لئےکیا جاتا ہے۔ جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کر سکتے،یہ صرف قانونی حکومت کر تی ہےلہذا طالبان اور دوسری دہشت گر دجماعتوں کا نام نہاد جہاد ،بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہے۔ اسلامی ریاست کیخلاف مسلح جدوجہد حرام ہے۔ طالبان دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں. .................................................................................. طالبان ،امن مذاکرات کے امکانات مخدوش http://awazepakistan.wordpress.com/