اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ردّعمل کا خوف محسوس کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کی حکومت خدشات کا شکار ہے۔

چنانچہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دارالحکومت کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور پولیس، دونوں ہی کو استعمال کیا جائے۔

حکومت کے اس فیصلے سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے مذاکرات کے آپشن کو پس پشت ڈال دیا ہے اور شمالی وزیرستان ایجنسی کے ان علاقوں میں جہاں عسکریت پسندوں کا گہرا اثر موجود ہے، فوجی آپریشن پر توجہ مرکوز کردی ہے۔

جمعرات کو سیکیورٹی فورسز کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے ساتھ ایک آپریشن کی طرز کی کارروائی بدھ کے روز شروع کردی گئی تھی۔

جب وزیراطلاعات پرویز رشید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جہاں شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے، سیکیورٹی فورسز وہاں اپنی کارروائی کریں گی۔‘‘

اس سوال پر کہ کیا حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں، تو وزیرِ اطلاعات نےجواب دیا ’’ہم ان سے مذاکرات کریں گےجو اِس کے لیے تیارہیں اور یہ آپریشن ان کے لیے شروع کیا جارہا ہے، جو مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔‘‘

ٹی ٹی پی کی جانب سے ردّعمل کے امکان کے پیش نظر اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں پرویز رشید نے ان اطلاعات کو مسترد نہیں کیا، انہوں نے کہا ’’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناصرف اسلام آباد بلکہ ملک بھر کے شہریوں کا تحفظ کرے۔ اس طرح کے انتظامات حکومت کے احتیاطی اقدامات کا حصہ ہیں۔‘‘

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے مبینہ طور پر حکومت خبردار کیا ہو کہ اگر ان کے مضبوط گڑھ میں ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ ملک میں خود کش حملے شروع کردیں گے۔ درحقیقت ایسے لوگ جو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی جانب سے شہروں میں اس طرح کے ردّعمل کو بطور دلیل استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

کیپیٹل پولیس کے ایک سینئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ حکومت نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی پولیس سے کہا ہے کہ وہ جڑواں شہروں کی سیکیورٹی کے لیے فوج کے ٹرپل ون بریگیڈ کی مدد حاصل کریں۔

مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ انسپکٹر جنرل پولیس آفتاب احمد چیمہ اور سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس محمد علی نیکوکارا نے راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو پر ملاقات کے دوران ٹرپل ون کی مدد کے لیے طلب کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے ساتھ تیار کی گئی ایک حکمت عملی کے تحت فوجی دستوں کو پولیس کے ساتھ شہر میں گشت کے لیے تعینات کیا جاسکتا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ کیپیٹل پولیس کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور شہر میں قائم چوکیوں کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ یہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر مؤثر ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ دسمبر 2013ء کے دوران کیپیٹل پولیس نے رینجرز کی مدد طلب کی تھی، لیکن وزیرِ داخلہ کی ہدایات کے باوجود نیم فوجی دستے پولیس کی مدد سے اب بھی گریزاں تھے۔

جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایس ایس پی نے شہری علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کی نہ تو تصدیق کی نہ ہی اس سے انکار کیا۔

اسی دوران پاکستان پیپلزپارٹی نے عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی اقدام کی تعریف کی اور اس کی حمایت کا عزم ظاہر کیا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ’’ہم ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کہ عسکریت پسند مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے اور یہ صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’ہم نے مذاکرات کے حکومتی اقدام کی شدت پسندوں کے خلاف سیاسی اتحاد کی خاطر حمایت کی تھی۔ اب اگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے تو فطری طور پر ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘‘

تاہم پاکستان تحریکِ انصاف نے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ایک بیان میں کہا ’’یہ فوجی آپریشن تشویش کا باعث ہے۔‘‘

عمران خان نے شمالی وزیرستان میں فضائی بمباری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ وسیع پیمانے پر زمینی کارروائی کا آغاز ہوسکتا ہے، جس سے بڑی تعداد میں لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہوں گے۔‘‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ پہلے ہی تقریباً بیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور کیے جاچکے ہیں اور وہ اس وقت بُری حالت میں جنہیں ریاست نے قریب قریب بھلا ہی دیا ہے۔

عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کیفیت کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ کریں، جس کے نتیجے میں خاص طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی سے کمی آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں اہم قبائل نے مذاکرات کی مکمل حمایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

فہیم May 23, 2014 04:44pm
ٹرپل ون بریگیڈ کو صرف پارلیمنٹ ، پرائم منسٹر ہاؤس، ریڈیو اور ٹی وی چینلز کی دیواریں کودنے کا تجربہ ہے. بولا تو رہیں ہیں لیکن اچھی طرح سوچ لیں ٹرپل ون والے بھائی جان دیواریں دیکھ کر کہیں کودنا نہ شروع کر دیں.