پہلا پارلیمانی سال۔ کارکردگی باعثِ افسوس

اپ ڈیٹ 02 جون 2014
۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: آج بروز پیر پارلیمنٹ اپنا نیا سال شروع کرنے جارہی ہے تو اس کے لیے جشن منانے سے زیادہ افسوس کا باعث ہوگا، اور اس کے لیے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نئے ایجنڈے منتظر ہوں گے۔

نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین خطاب کریں گے۔ دوسری جانب تین دن پہلے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اپنی ایک سال کی مدتِ اقتدار مکمل کرچکی ہے، اس کا پہلا سال پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہ سنگین مسائل الجھتے ہوئے گزرا ہے۔

لیکن پارلیمنٹ اپنی بنیادی کارکردگی پچھلے ایک سال کے دوران سب سے زیادہ مایوس کن تھی اور اس لحاظ سے یہ ملک کی سرفہرست مقننہ رہی کہ اس دوران دونوں ایوانوں میں ایک بل بھی منظور نہیں ہو پایا۔

اس حوالے سے حکمران مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی فراست کی یا اعتماد کی کمی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے، جہاں فنانس بل کے علاوہ دس بلوں میں سے کوئی ایک بل بھی منظور نہیں کرایا جاسکا۔ یہ بل حکومت نے قومی اسمبلی میں پیش کیے جہاں اس کی مطلق اکثریت حاصل ہے، لیکن سینیٹ میں یہ منظور نہیں کرائے جاسکے جہاں حزب اختلاف کا کنٹرول ہے۔

پیپلزپارٹی کی قیادت میں پچھلی حکومت کا ریکارڈ اس کے بالکل برعکس ہے، جس کا سہرا اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی سیاسی مخالفین کے ساتھ مفاہمانہ پالیسی کو جاتا ہے، جب اس حکومت کی پانچ سالہ دورِ اقتدار میں سو سے زیادہ بلز متفقہ طور پر منظور ہوئے، جس میں آئین میں تاریخی ترمیم بھی شامل ہے۔

ایسا لگتا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف، زرداری سے بازی لے جائیں گے، جب انہوں نے حال ہی میں حزبِ اختلاف کی بہت سی اہم ترامیم کے لیے گنجائش نکالنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن دہشت گردی کے خلاف حکومت کی متنازعہ قانون سازی کی قومی اسمبلی میں شدید مخالفت کی گئی اور سینیٹ میں اس کو روک دیا گیا۔

دونوں فریقین نے حزب اختلاف کی ترامیم کے ایک سلسلے پر غور کیا ہے، جس کا مقصد کچھ سخت دفعات میں نرمی کرنا ہے، مثال کے طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ دہشت گرد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا اختیار دینا، انہیں بغیر کسی کارروائی کے نوّے دن تک حراست میں رکھنا اور مقدمات کی خفیہ سماعت کرنا ۔

لیکن تحفظ پاکستان بل جس کی بنیاد دو صدراتی آرڈیننس ہیں، کے اندر ترمیم کا ایک متفقہ مسودہ ابھی سینیٹ کے سامنے پیش کیا جانا ہے۔

صدر کا آئینی خطاب آج گیارہ بجے متوقع ہے۔

امکان ہے کہ صدر اپنی تقریر میں اقتصادی تبدیلی کے حکومتی دعووں پر بات کریں گے، طالبان باغیوں کے ساتھ موجودہ حکومت کے امن مذاکرات کی وضاحت کریں گے اور ملک کی روایتی خارجہ پالیسی کے مقاصد کا اعادہ کریں گے۔

حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ صدر کے خطاب کے دوران کسی قسم کا احتجاج نہیں کرے گی، لیکن پاکستان تحریک انصاف جو گیارہ مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کررہی ہے، ممکن ہے کہ اس دوران بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔

تبصرے (0) بند ہیں