وفاق نے کراچی کے اہم منصوبے نظرانداز کردیے

06 جون 2014
نادرن بائی پاس اور لیاری ایکسپریس وے کے منصوبوں سمیت بہت سی اہم اسکیموں کو وفاقی ترقیاتی پروگرام سے خارج کردیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
نادرن بائی پاس اور لیاری ایکسپریس وے کے منصوبوں سمیت بہت سی اہم اسکیموں کو وفاقی ترقیاتی پروگرام سے خارج کردیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے اہم منصوبوں کی ذمہ داری لینے سے اسلام آباد نے انکار کرنے پر حکومتِ سندھ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا، لیکن اس کے باوجود بھی اگلے مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام منصوبوں میں سے کسی کو بھی وفاقی حکومت نے اپنے اخراجات کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔

وفاقی بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی گہری توجہ ریلوے کے منصوبوں پر مرکوز ہے، جسے بجٹ کے خلاصے میں فخریہ طور پر نمایاں کیا گیا ہے، جبکہ دیگر منصوبے، جن میں شہروں کے بنیادی ڈھانچے خصوصاً بڑے شہروں کے لیے درکار سیوریج اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔

اگلے مالی سال کے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں سے کراچی کے لیے منتخب کیے جانے والے اہم منصوبوں میں سے جن کا باضابطہ طور پر بجٹ تقریر میں ذکر کیا گیا تھا، مواصلات یا توانائی کی سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں۔

اسلام آباد کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز جسے اولین منصوبہ قرار دیا گیا تھا، 959 کلومیٹر طویل کراچی لاہور موٹر وے کا منصوبہ ہے، یہ تیز رفتار جنوبی شمالی کوریڈور سندھ کو ملک کے بالائی علاقے سے منسلک کردے گا۔ اس منصوبے کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

یہ رقم بنیادی طور پر اس سال زمین کی خریداری پر خرچ کی جائے گی۔ اگلے سال کے ترقیاتی بجٹ میں اس کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ 55 ارب روپے کی سرمایہ کاری اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول کو ممکن بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ لاہور سے خانیوال 276 کلومیٹر، ملتان سے سکھر سیکشن 387 کلومیٹر، سکھر سے حیدرآباد سیکشن 296 کلومیٹر اور حیدرآباد سے کراچی کے 136 کلومیٹر کے سیکشن پر کام جلد شروع ہوجائے گا، اور اسے سرکاری اور نجی شراکت کی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔

حکومت کو یقین ہے کہ اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اسی طرح بجٹ میں کراچی سے خانپور اور خانپور سے لودھراں تک ریلوے کی پٹری کی بحالی کا کام کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مختص رقم سے ریلوے کے 159 کمزور پلوں کو مضبوط بنانے اور ان کی بحالی کا کام بھی کیا جائے گا۔ ان اقدامات سے رفتار میں اضافہ ہوگا اور سفر کا وقت کم ہوجائے گا۔

موجودہ حکومت اربن ریلوے پروجیکٹ میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا، جسے ابتداء میں کراچی اور لاہور میں متعارف کرایا جارہا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ میں کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے لیے رقم مختص کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ کراچی کے ساحل پر جوہری توانائی کے دو منصوبے کے-2 اور کے-3 جس سے دو ہزار دوسو میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی، چین امداد کے ساتھ شروع کیے گئے ہیں، جنہیں توانائی کی خودانحصاری کی سمت میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

حکام کہتے ہیں کہ چھ مزید مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جہاں اس طرح کے دیگر منصوبوں کو لگایا جاسکتا ہے۔

ان منصوبوں کی تکمیل میں اندازاً چھ سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

وفاقی حکومت کے حکام کراچی نادرن بائی پاس اور لیاری ایکسپریس وے کے منصوبوں سے کچھ لاتعلقی سی اختیار کیے ہوئے ہیں، اسی لیے ان کی بریفنگ میں ان کی تفصیلات کو بہت کم اجاگر کیا گیا ہے۔

مذکورہ دونوں منصوبے اور کراچی سرکلر ریلوے کے ساتھ صوبے کے لیے گیارہ اہم اسکیموں کے بارے میں سندھ کے وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ نے نشاندہی کی تھی کہ انہیں اسلام آباد نے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام سے خارج کردیا ہے۔

ڈان سے بات چیت کے دوران ایک صوبائی وزیر نے کہا ’’وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مثبت اشارہ ملا ہے کہ اگلے سال کے بجٹ میں ان میں سے کچھ منصوبوں کو شامل کیا جائے گا، تاہم اب تک بہت سے دیگر منصوبوں پر غور نہیں کیا گیا ہے، جو سند ھ کے لیے بہت اہم ہیں۔‘‘

وزیرِ اعلٰی قائم علی شاہ نے اسلام آباد میں منعقدہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) اور قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاسوں میں شرکت کے بعد پچھلے ہفتے احتجاج کیا تھا کہ اسلام آباد نے سندھ کے گیارہ اہم منصوبے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگرام سے خارج کردیے تھے۔

قائم علی شاہ کے احتجاج پر وزیرِ اعظم نواز شریف نے انہیں یقین دہانی کرائی کے ان کی شکایات پر غور کیا جائے گا۔

مذکورہ وزیر نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ بجٹ میں کچھ منصوبوں کی شمولیت محض اس کی ایک عکاسی کرتی ہے۔‘‘

اس سے پہلے سندھ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مالی دشواریوں کا بہانہ کرکے یہ اسکیمیں جن میں کراچی کے لیے کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے، کے-4 اور ایس-3 کے منصوبے اور تھر کول سے متعلق ایک اسکیم پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگرام سے خارج کردی گئی تھیں۔

کے-4 ایک ستائیس کروڑ روپے کا ایک منصوبہ ہے۔ جسے کراچی کے پانی کی فراہمی کے نظام کی صلاحیت کو دوگنا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ کراچی ایک کروڑ اسی لاکھ افراد کا شہر ہے اور دنیا کے سب سے زیا دہ آبادی والے شہروں میں سے ایک ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020ء تک اس کی آباد دو کروڑ اسّی لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ چنانچہ بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیوں کے لیے ہر دو سال کے بعد اس شہر کی پانی کی طلب میں 120MGD تک کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس وقت شہر میں پانی کی طلب لگ بھگ 600 ایم جی ڈی ہے، جس میں سے تقریباً پانچ سو ایم جی ڈی کی طلب دریائے سندھ سے پوری کی جاتی ہے اور باقی 100 ایم جی ڈی کو حب ڈیم پورا کیا جاتا ہے۔

کے-4 کے نظام سے 600ایم جی ڈی کا اضافی پانی شہرکو دریائے سندھ سے فراہم کیا جائے گا۔

گریٹر کراچی سیوریج کی ٹریٹمنٹ کا منصوبہ، جس کی لاگت گیارہ کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے، اس کی تعمیر کے ساتھ اس کی موجودہ سہولتوں کی مرمت بھی ہوگی۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ دونوں منصوبے کراچی کے لیے بے انتہا اہمیت رکھتے ہیں اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اگر انہیں یونہی چھوڑ دیا گیاتو یہ شہر بالکل بے قابو ہوجائے گا، ناصرف امن و امان کے سلسلے میں، جیسا کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں، بلکہ جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ یہ ہرمعاملے میں کنٹرول سے باہر ہوجائے گا۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Shahjahan Jun 06, 2014 07:27pm
Kitna gulat faysla hay kay Karachi kay lye kuch nahi hay, Lahore kay lye fund hazar haye
Shahjahan Jun 06, 2014 08:15pm
Agar Karachi kay lye Fund nahi hay to karachi ka jo hisa center ka deta hay us may say us ko fund dya jay